کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 298
بات تسلیم نہیں کی تواس لیے کہ انھوں نے اس کی تصحیح نہ خود کی اور نہ ہی کسی دوسری محدث سے اس کی تصحیح نقل کی۔ اس کے برعکس حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں چونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’ صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے ۔ اس لیے ان کی بات پر اعتماد کیا ہے۔ ڈیروی صاحب ان کی ادھوری عبارت نقل کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے تھے مگر یہ دھوکے کی ہنڈیا یہاں بھی چوراہے میں پھوٹی ہے۔ علامہ علی متقی رحمۃ اللہ علیہ اور حدیث بیہقی رحمۃ اللہ علیہ راقم نے توضیح (ج ۱ ص ۳۸۶) میں عرض کیا تھا کہ علامہ علی متقی حنفی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق نقل کرتے ہیں ’’ صحیح الاسناد‘‘ کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس میں جو زیادت ہے وہ کئی طرق سے صحیح اور مشہور ہے۔‘‘ اور اسی بنا پر یہ بھی عرض کیا گیا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ اور علامہ متقی رحمہ اللہ کی اس رائے کے بعد محض ظن و تخمین سے اس کے راویوں پر تبصرہ فضول ہے۔ ڈیروی صاحب اسی حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ متقی رحمہ اللہ ناقل ہیں ۔ ان کی یہ رائے قرار دینا خالص جھوٹ ہے ۔ وہ کنز العمال میں جمع شدہ روایات پر خود جرح یا تصحیح نہیں کرتے ۔ ہاں کسی محدث کا اس روایت کے بارے میں قول منقول ہو تواسے نقل کرتے ہیں۔ملخصاً(ایک نظر: ص ۱۲۶) اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کنز العمال دراصل علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی جمع الجوامع ، الجامع الصغیر اور زوائد الجامع الصغیر پر مشتمل ہے۔ اور علامہ علی رحمہ اللہ متقی نے انہی کتابوں کی روایات کو ابواب پر مرتب کیا۔ بلاشبہ انھوں نے خود کسی روایت کی جرح یا تصحیح نہیں کی بلکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے جو نقل کیا علامہ متقی رحمہ اللہ نے بھی اسے بلاکم و کاست نقل کر دیا۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بیہقی رحمہ اللہ ، دارقطنی رحمہ اللہ ، طبرانی رحمہ اللہ ، ابویعلی وغیرہ کی روایات کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’ان میں صحیح ، حسن اور ضعیف احادیث بھی ہیں جس کو میں غالب طور پر بیان کر دوں گا۔ ان کے الفاظ ہیں: وھذہ فیھا الصحیح والحسن والضعیف فابینہ غالبا (مقدمہ کنز: ص ۱۰) علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اسی بنا پر کتاب القراء ۃ للبیہقی رحمہ اللہ کی زیر بحث روایت کے بارے میں فرمایا:’’اس کی سند صحیح ہے اور اس میں جو زیادت ہے وہ کئی طرق سے صحیح