کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 297
اور رہے محمد رحمہ اللہ بن عبدالسلام تو وہ نیسا پور کے مشہور اور نہایت عابد و زاہد ثقہ محدث تھے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ ہی لکھتے ہیں:
کان صواماً قواما ربانیاً ثقۃ ۔ (التذکرۃ : ۲/۶۴۹)
اسی طرح السیر(ج ۱۳ ص ۴۶۰) اور تاریخ اسلام میں بھی حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ لہٰذا ڈیروی صاحب کا اس کی سند کو مجہول قرار دینا بے خبری یا دھوکا دہی کا نتیجہ ہے۔
محدث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ ا ور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ
محدث مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی تحقیق الکلام (ج۱ ص ۹۸) میں اس حدیث کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ کا موقف ’’صحیح الاسناد‘‘ نقل کیا ہے۔ جس کے متعلق ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا مبارک پوری لکھتے ہیں: ’’امام بیہقی رحمہ اللہ اگرچہ ایک مشہور محدث ہیں مگر ان کا کوئی قول بلادلیل معتبر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (تحقیق الکلام : ۲؍۳۶) مگر یہاں ان کا اس روایت کی تصحیح کرنا آپ کے حق میں تھا ۔فلہٰذا اب ان کی تصحیح معتبر ہو گئی۔(ایک نظر: ص ۱۲۷)
ہم بحمدالله ثابت کر آئے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی تصحیح درست اور اصول کے عین مطابق ہے اور اس کا انکار محض ضد و عصبیت کا نتیجہ ہے اور توضیح میں اسی حوالے سے ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کے وسواس کا ازالہ بھی ہم کر چکے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کی بات بلادلیل معتبر نہیں مگر اس سے جو نتیجہ ڈیروی صاحب نے نکالا وہ دراصل اس دھوکا پر مبنی ہے کہ انھوں نے تحقیق الکلام کی پوری عبارت نقل نہیں کی۔ چنانچہ مکمل الفاظ یوں ہیں:
’’امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت اور ان کے ہم مضمون اور روایتوں کو جو نقل کیا ہے سو ان کی نہ خود تنقید کرکے تصحیح کی ہے اور نہ کسی ناقدفن سے تصحیح نقل کی ہے۔ پس حضرت ابوہریرہ رضی اللهعنہ کی روایت کیونکر مرجح و معتبر ہو سکتی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ اگرچہ ایک محدث مشہور ہیں مگر ان کا کوئی قول بلادلیل معتبر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (تحقیق الکلام : ۲؍۳۶)
غور فرمائیے ! محدث مبارک پوری رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی متعلقہ روایت کی نہ خود تصحیح کی نہ کسی ناقدفن سے تصحیح نقل کی۔ اس لیے بلادلیل محض نقل کر دینے سے ان کا قول معتبر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذامحدث مبارک پوری رحمہ اللہ نے یہاں امام بیہقی رحمہ اللہ کی