کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 293
کس درجہ میں شمارہوا ہے ؟ یہ اگر ایسی جرح ہے کہ اس سے راوی ساقط الاعتبار ہوتا ہے توامام ابن اخرم کا اس کی کسی بات پر انکار نہ کرنا چہ معنی دارد؟ پھر کیا اس سے راوی کی عدالت یا ضبط مجروح ہوتا ہے؟ اس سے تو بس اس کی ایک اخلاقی کمزوری کا اظہار ہے کہ ان کی زبان میں سختی و تلخی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بلاشبہ مذمت فرمائی اور فرمایا کہ ’’لوگوں میں زیادہ برا وہ ہے جس کو لوگ اس کی بدزبانی کے ڈر سے چھوڑ دیں۔‘‘ مگر ڈیروی صاحب نے غور نہیں کیا کہ محمد رحمہ اللہ بن سلیمان کو تواس سبب سے کسی نے بھی نہیں چھوڑا۔ حتی کہ امام ابن اخرم خود ان کے شاگرد ہیں اور انہی کے واسطہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کرتے ہیں کہ ’’ من اراد ان یصنف کتابا فلیبدأ بحدیث الاعمال بالنیات‘‘ جو کوئی کتاب لکھنے کا ارادہ کرے اسے چاہیے کہ اس کا آغاز اس حدیث سے کرے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے(الجامع للخطیب: ج ۲ ص ۳۰۰)۔ بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے : ایک جماعت نے ان سے روایت لی ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی نیساپور میں ایک مدت تک ان کے ہاں ٹھہرے، ان کے حلقہ سے اسی سبب کی بنا پر کون نکلا؟ کاش ڈیروی صاحب اس کی بھی نشاندہی کر دیتے۔
اخلاق و مروت کی کمزوری کیا راوی کے ساقط العدالت کاباعث ہے یا نہیں۔ اصول حدیث کا معروف مسئلہ ہے۔ خطیب بغدادی نے الکفایہ (ص ۱۸۱ تا ۱۸۶) میں اور دیگر ائمہ حدیث نے اس پر بحث کی ہے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ۔ آپ انداز ہ کریں کہ احمد بن صالح المصری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
صدق ابوسعید بن یونس حیث یقول لم یکن لہ آفۃ غیر الکبر ، فلو قدح فی عدالتہ بذلک فانہ اثم کبیر۔ (السیر: ۱۲/۱۷۴)
ابوسعیدبن یونس نے سچ کہا ہے کہ اس میں بس یہی آفت تھی کہ وہ تکبر کے مرتکب تھے۔ لہٰذا اس کی عدالت پر جو رد و قدح کی گئی ہے اس کا سبب یہ ہے کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ غور فرمائیے اس کمزوری کی بنا پر بعض نے اس پر جرح کی لیکن کیا وہ ساقط العدالت اور ناقابل اعتبارہیں؟ ہر گز نہیں۔ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے انھیں ’’ الامام الکبیر حافظ