کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 292
عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ اس کی روایت پر اعتماد نہ کرتے۔امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے المسند المستخرج علی مسلم رحمہ اللہ میں اس کے واسطہ سے بہت سی روایات کا استخراج کیا ، ملاحظہ ہو(ج ۲ ص ۹۵،۱۱۶، ج ۳ ص ۵۲،۶۵،۲۷۶، ج ۴ ص ۱۲،۴۶) امام حاکم نے المستدرک (ج ۱ ص ۳۵۶) میں اس کی روایت کہ ان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم کان اذا مرت بہ جنازۃ وقف حتی تمربہ کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے علی شرطھما کہہ کر ان کی موافقت کی ہے او ر (ج ۳ ص ۴۷۵،۴۷۸،۴۸۲) وغیرہ میں بھی اس کے واسطہ سے اقوال نقل کیے ۔ امام ابن حبان کے وہ استاد ہیں اور صحیح ابن حبان میں اس سے روایات ذکرکیں ۔ ملاحظہ ہو الموارد (ص ۵۷۸،۵۹۷)،صحیح ابن حبان (ج ۲ ص ۱۰۱، ج ۳ ص ۱۴۹ ، ج ۴ ص ۱۶۷،ج ۵ ص ۱۲۶) ا ور امام بیہقی رحمہ اللہ کا اس کی سند کو صحیح الاسناد کہنا بجائے خود اس کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔ ڈیروی صاحب کو محمد رحمہ اللہ بن سلیمان پر کلام کے حوالے سے تو کچھ نہ ملا البتہ امام ابن رحمہ اللہ الاخرم کے ایک قول سے کہ ’’ ما انکرنا علیہ الا لسانہ فانہ کان فحاشا‘‘ہم نے اس کی کسی بات پر انکار نہیں کیا سوائے اس کی زبان کے کہ وہ تیز و تلخ زبان تھے۔ ڈیروی صاحب اسی پر سر دھننے لگے کہ دیکھو جی وہ تو ’’فحاش بڑا زبان دراز اور بڑا بدزبان تھا۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’لوگوں میں سے زیادہ برا وہ ہے جس کو لوگ اس کی بدزبانی کے ڈر سے چھوڑ دیں۔ اس لیے محمد بن سلیمان تو بہت بڑا شریر اور غیر ثقہ تھا ۔‘ ‘ ملخصاً (ص ۱۴۳،۱۴۴)
ڈیروی صاحب کی بے چارگی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اس جھوٹے دعویٰ میں کہ محمد بن سلیمان ’’غیر ثقہ‘‘ ہے کوئی دلیل تو کیا پیش کرتے الٹا امام ابن اخرم سے نقل کر دیا کہ ’’ہم نے اس کی کسی بات پر انکار نہیں کیا۔‘‘ بھلا جو راوی ’’غیر ثقہ ‘‘ہو اس کی کسی بات پر انکار نہیں ہوتا؟ ’’غیر ثقہ‘‘ تو قابل قبول نہیں ہوتا ہے مگر یہاں الٹا یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’ اس کی کسی بات پر ہم نے انکار نہیں کیا۔‘‘ یہ اس کی توثیق ہے یا اس پر جرح ہے؟
ع خدا دے تو دے لیکن الٹی سمجھ کسی کو نہ دے
رہی یہ بات کہ وہ بڑے ’’فحاش‘‘ تھے ۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ الفاظ جرح میں یہ لفظ