کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 289
نے اس حدیث کے بارے میں ’’اسناد صحیح‘‘ کہا ہے تو بلاریب اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ اس کے کسی راوی کا ترجمہ نہ ملنا یااس کی توثیق نہ ملنے کا اعتراض عذر لنگ ہے اور اصول کے سراسر منافی ہے۔ محمد رحمہ اللہ بن یحییٰ الصفار اور ڈیروی صاحب کی ہٹ دھرمی ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں محمد رحمہ اللہ بن یحییٰ بالکل مجہول ہے ۔اسماء الرجال میں اس کے حالات درج نہیں ہیں۔ حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ اس کا ترجمہ تاریخ نیشاپور للحاکم میں ہے جیسا کہ اس کی مختصر سے ظاہرہے۔ محترم زبیر صاحب کم از کم اس مختصر سے دو چار کلمات خیر تو اس کے حق میں نقل کر دیتے مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ جب تاریخ نیشاپور میں اس کا ترجمہ نہیں ہے تو مختصر میں اختصار کے ساتھ ترجمہ بھی ندارد؟فلہذا جھوٹا دعویٰ کرنا مسلمان کی شان کے خلاف ہے(ایک نظر: ص ۱۴۲) بلکہ ص ۱۴۵ پر انھوں نے کہا ہے کہ محمد بن یحییٰ الصفار کذاب و دجال ہے۔ دراصل ڈیروی صاحب جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے خود اتنا جھوٹ بول رہے ہیں کہ قارئین کے لیے وہ سچ ثابت ہو جائے ۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ’’تاریخ نیشاپور میں اس کا ترجمہ نہیں‘‘ کس بنیاد پر قائم ہے ۔ کیا یہ انکار سراسر جھوٹ پر مبنی نہیں؟ اسی طرح یہ کہنا کہ ’’مختصر میں اختصار کے ساتھ ترجمہ بھی ندارد‘‘ بھی محض جھوٹ پر مبنی ہے۔ تاریخ نیشاپور تو معلوم نہیں کس کتب خانہ کی زینت ہے۔ معلوم ہوتا ہے ڈیروی صاحب نے اس کا اختصار بھی نہیں دیکھا اور اپنی اس بے خبری کی بنا پر دونوں میں ترجمہ کا انکار کر دیا۔ تاریخ نیشاپور کا اختصار کرنے والے احمد رحمہ اللہ بن محمد بن الحسن المعروف بالخلیفہ النیساپوری نے اختصار میں ان محدثین کے ناموں کو جمع کر دیا ہے اور بہت کم کسی کے بارے میں کوئی تفصیل لکھی ہے۔ اسی اختصار کے ص ۳۴ پر ’’محمد بن یحییٰ ابوابراہیم الصفار النیشاپوری‘‘ کا نام موجود ہے۔ لہٰذا ڈیروی صاحب کا انکار محض جھوٹ اور انھیں مجہول یا کذاب کہنا بھی خودفریبی پر مبنی ہے جب کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے تو محمد بن یحییٰ کو مجہول یا کذاب کہنا کس بنیاد پر مبنی ہے ؟ امام حاکم رحمہ اللہ نے محمد رحمہ اللہ بن ہشام المروزی کی سند سے حدیث ’’ ماء زمزم لما شرب لہ‘‘ بیان کی۔ امام ابن