کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 288
قارئین کرام ! اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ذات شریف کے ہاں امام بیہقی رحمہ اللہ کی قدر و منزلت کیا ؟ انھیں محرف اور خائن اور جھوٹ کا سہارا لینے والے، اوراس کے ساتھ ہی حدیث من کذب علی متعمدا۔۔الحدیث،نقل کرکے جو اشارہ انھوں نے کیا یہ ان کے بغض و عناد کا ثبوت ہے۔ ہم تو یہی عرض کریں گے کہ ﴿ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ﴾۔ ہم ان کی اس زبان درازی اور الزام تراشی کا جواب دے کر بات کو طول دینا نہیں چاہتے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے التذکرہ (ج ۲ ص ۱۱۳۲) میں الامام الحافظ العلامۃ اور شیخ خراسان اور السیر (ج ۱۸ ص ۱۶۳) میں انھیں الحافظ ، العلامۃ، الثبت، الفقیہ ، شیخ الاسلام کے القاب سے یاد کیا ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل میں ان کا شمار ہوتا ہے، جیسا کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے المتکلمون فی الرجال (ص ۱۱۰) میں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل (ص ۲۰۰) میں ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی محدث کسی روایت کی سند کو صحیح الاسناد یا صحیح کہتا ہے تواس کا اصولاً حکم کیا ہے؟ اس کے بارے میں علامہ ابن الصلاح لکھتے ہیں: قولھم ھذا حدیث صحیح الاسناد أو حسن الاسناد دون قولھم ھذا حدیث صحیح أو حدیث حسن ۔الخ (علوم الحدیث : ص ۳۵) کہ محدثین جب یہ کہتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد یا حسن الاسناد ہے اس کا مرتبہ ان کے اس قول سے کم تر ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا یہ حسن ہے۔ یہ اس لیے کہ کبھی صحیح الاسناد حدیث شاذ یا معلول ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہوتی ۔ البتہ اگر کوئی مصنف معتمد صحیح الاسناد کہے اور کوئی علت ذکر نہ کرے توظاہر میں اس کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ فی نفسہٖ صحیح ہے۔ یہی بات تدریب الراوی (ص ۹۱،۹۲) اور دیگر کتب اصول میں موجود ہے جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جب کوئی محدث کسی حدیث کے بارے میں صحیح یا حسن الاسناد کہتا ہے تواس کے نزدیک اس کے راوی ثقہ و صدوق ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب امام بیہقی رحمہ اللہ