کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 287
میں موجود ہے۔
اس کے جواب میں جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ تصحیح بلادلیل ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ ایک طرف مجہول اور ضعیف راویوں کی حدیث قبول نہیں کرتے جب کہ دوسری طرف کئی مقامات پر انھوں نے وضاعین و متروک راویوں کی روایات بھی ذکر کی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں انھوں نے دس احادیث کی نشاندہی کی ہے جیسا کہ ایک نظر (ص ۱۲۸ تا ۱۴۲) میں اس کی تفصیل ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کے بارے میں ان کی گوہر افشانیاں ملاحظہ ہوں ۔
۱۔ حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ نے جان بوجھ کر یہ جھوٹی روایت اپنے مذہب کو سہارا دینے کے لیے ذکر کی ۔ من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار متواتر حدیث ہے ،الله تعالیٰ مذہبی تعصب سے محفوظ رکھے(ص۱۲۹)
۲۔ حضرت بیہقی رحمہ اللہ جھوٹے اور مجہول راویوں سے اپنا دین حاصل کر رہے ہیں(ص ۱۳۱)
۳۔ ماشاء الله ، امام بیہقی رحمہ اللہ ، امام حاکم رحمہ اللہ ،ابوعلی رحمہ اللہ الحافظ ان سب حضرات کو مبارک ہو کہ وہ جھوٹی روایتیں اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ (ص ۱۳۹)
۴۔ اس روایت میں بہت زبردست تحریف کی گئی ہے۔ اس تحریف کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے میرے خیال میں اصل ذمہ دار تو مصنف ہوتا ہے(ص ۱۳۵،۱۳۶) ۔ گویا امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ تحریف کی ہے۔
۵۔ حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ نے زبردست خیانت کا ارتکاب کیا ۔(ص ۱۳۶)
۶۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں سینہ زوری اور تک بندی سے زیادہ کام لیا ہے مگر اپنی مراد میں وہ نامراد ثابت ہوئے ہیں۔(ص ۱۴۰)
۷۔ امام بیہقی رحمہ اللہ عجیب کارنامے سرانجام دے رہے ہیں ۔ کہیں کی اینٹ ،کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا ۔(ص ۱۴۱)
۸۔ کتاب القراء ۃ کافی حد تک غلط کتا ب ہے۔ لہٰذا اس میں امام بیہقی رحمہ اللہ کے فیصلے اکثر غلط ہیں۔(ص ۱۴۲)