کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 283
امام اوزاعی رحمہ اللہ پر تدلیس کا الزام
راقم نے توضیح (ج ۱ ص ۵۱۵) میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کیا ہے، جس کے بارے میں جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: دونوں سندوں میں اوزاعی رحمہ اللہ بھی مدلس ہے اور روایت عن سے ہے۔ اور دونوں سندوں میں حسان بن عطیہ نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا تو مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے(ایک نظر: ص ۳۱۳)۔
حالانکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ عبدالرحمن بن عمرو کو کسی نے بھی مدلس نہیں کہا۔ یہ سراسر ڈیروی صاحب کا امام اوزاعی رحمہ اللہ پرالزام ہے ،نہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں ، نہ علامہ الحلبی رحمہ اللہ نے التبیین میں اور نہ ہی حافظ کیکلدی رحمہ اللہ نے جامع التحصیل میں انھیں مدلس قرار دیا اور نہ ہی اصحاب تراجم نے اس قسم کا کوئی اشارہ کیا۔ بلکہ کتاب القراء ۃ (ص ۱۲۱) میں :’’ حدثنی حسان بن عطیۃ ‘‘ کہہ کر امام اوزاعی رحمہ اللہ نے سماع کی صراحت بھی کر دی ہے ۔ لہٰذا امام اوزاعی رحمہ اللہ پر تدلیس کا الزام بھی غلط اور اس روایت میں تدلیس کی بنیاد پر اعتراض بھی غلط۔ رہی یہ بات کہ حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان (ج ۱ ص ۱۳۳) میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ مگر ڈیروی صاحب کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے اپنے حنفی اصول میں خیر القرون کی منقطع و مرسل روایت مقبول ہے۔(انہاء السکن : ص ۳۹) اور اعلاء السنن میں جا بجافرمایا گیا ہے کہ منقطع ہونا ہمارے نزدیک ضعف کا موجب نہیں۔ اس لیے انھیں کم ازکم اپنے اصول کی پاسداری کرنی چاہیے۔
ڈیروی صاحب کی بے جا برہمی
راقم نے توضیح الکلام (ج ۲ ص ۲۷۷) میں سنن دارقطنی رحمہ اللہ کی ایک روایت کے حوالے سے مؤلف احسن الکلام نے محدث گوندلوی پر جو اعتراض کیا اس کا اصولی جواب دیا ہے جس کے بارے میں ڈیروی صاحب کی برہمی دیکھیے، لکھتے ہیں:اثری صاحب نے اول تو خیانت و تحریف کا ارتکاب کیا ہے ، مولانا صفدر صاحب نے لکھا ہے مگر محمدبن یونس (جس