کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 282
ورد شرعی ہے یا غیر شرعی ؟ ظاہر ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں دیا۔ لہٰذا کیا غیر شرعی خالص مشرکانہ ورد کو موثر سمجھ کر پڑھنا جائز ہے؟ الله سبحانہ و تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرما دیا: لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا کہ راعنا نہ کہو انظرنا کہو حالانکہ صحابہ کرام کے تصور میں بھی ’’ راعنا‘‘ کے وہ معنی نہ تھے جو یہود مراد لیتے تھے، مگر انھیں بھی یہ لفظ بولنے سے منع فرما دیا ہے۔ مگر افسوس ’’خالص مشرکانہ ورد‘‘ صحیح العقیدہ کے لیے جائز ہوجائے؟ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں ، حضرت قاضی ثناء الله پانی پتی کی ’’ارشاد الطالبین‘‘ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہ ’’ورد‘‘ جائز نہیں ’’شرک و کفر ‘‘ ہے اور خود ان کے الفاظ ہیں: شیئا للّٰہ کا پڑھنا کسی وجہ سے جائز نہیں۔ اگر شیخ قدس سرہ کو عالم الغیب اور متصرف مستقل جان کر کہتا ہے تو خود شرک محض ہے۔۔ اور جو یہ عقیدہ نہیں تو بھی ناجائز ہے کیونکہ اس صورت میں گویہ ندا شرک نہ ہو مگر مشابہ بشرک ہے اور جو لفظ موہم معنی شرک ہو اس کا بولنا بھی ناروا ہے۔۔۔ پس ایسی دعوت بہرحال یا شرک جلی یا خفی یا لغو مشابہت بشرک ہو کر حرام و ناجائز ہوئے گی ۔ کسی وجہ جواز کا شائبہ اس میں نہیں ہو سکتا۔الخ ‘‘ ( فتاویٰ رشیدیہ ، ادارہ اسلامیات ۔لاہور ص۹۲،۹۳) یہی بات راقم نے عرض کی کہ یہ ورد بہرنوع ناجائز بلکہ حرام ہے۔ اسی حوالے سے ایک تفصیلی فتویٰ فتاویٰ ثنائیہ (ج۱ ص ۲۹۵-۲۹۹) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے برعکس حضرت تھانوی رحمہ اللہ اور علامہ کشمیری رحمہ اللہ اسے کلیۃ جائز قرار نہیں دیتے بلکہ دم کے طور پر اس کے نفع و فائدہ کو موثر تسلیم کرتے ہیں۔ حکایت کے طور پر کسی ناجائز جملہ کو زبان پر لانا اور اسے مفید اور نفع بخش سمجھ کر پڑھنا اوراس کا ورد کرنا دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ افسوس کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب کو یہ فرق نظر نہیں آتا۔ لہٰذا مولانا غزنوی رحمہ اللہ کے حوالے سے دفاع کی یہ ناکام کوشش بھی عذر گناہ بدتراز گناہ کا مصداق ہے۔