کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 280
۳۱۱) مگرڈیروی صاحب نے غور نہیں کیا کہ خطیب رحمہ اللہ نے یہ قول دو سندوں سے ذکر کیا ہے۔ عثمان میں اگر کوئی کمزوری ہے تو دوسری سند سے اس کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ عثمان سے روایت کرنے والوں میں تین کا ذکر خطیب نے کیا ہے ۔ لہٰذا یہ مجہول العین تو قطعاً نہ رہا اور ان تین میں ایک ابن شاہین ہیں۔ جنھوں نے الافراد میں اس سے روایت لی ہے اور روایت کے آخر میں کہا ہے:’’ ھذا حدیث غریب صحیح الاسناد‘‘ (مجموع فیہ من مصنفات ابن شاہین ص ۲۴۷) لہٰذا جب عثمان کی روایت کو انھوں نے صحیح الاسناد کہا ہے تو اس کے ثقہ و صدوق ہونے میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے۔ ہاں اگر اس پر جرح ثابت ہو اور کسی نے اسے ضعیف قرار دیا ہو تو فبہا ،ورنہ عثمان رحمہ اللہ کو ثقہ و صدوق ہی قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا یہ قول بھی سنداً صحیح ثابت ہوا اور ڈیروی صاحب کے وساوس تارعنکبوت کی طرح تار تار ہو گئے۔
امام احمد رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں موقف اس بات سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی المسند (ج ۵ ص ۳۵۷) میں ایک روایت یوں ذکر کی ہے :’’ ثنا اسحاق بن یوسف انا ابوفلانۃ ‘‘ ان کے صاحبزادے امام عبد رحمہ اللہ الله فرماتے ہیں :’’ کذا قال ابی ولم یسمہ علی عمد وحدثنا غیرہ فسماہ یعنی اباحنیفۃ ‘‘ کہ میرے والد صاحب نے اسی طرح ’’ابوفلا نۃ‘‘ کہا اور قصداً ان کا نام نہیں لیا اور ان کے علاوہ دوسرے استاد نے یہ روایت بیان کی تواس کا نام ابوحنیفہ رحمہ اللہ لیا۔
اندازہ کیجیے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ان کا نام لینا گوارا نہیں کیا۔ یہ روایت امام صاحب علقمۃ بن مرثد عن سلیمان بن بریدۃ عن ابیہ کی سند سے بیان کرتے ہیں۔ جس کے الفاظ ہیں: اذھب فان الدال علی الخیر کفاعلہ یہی روایت امام ابونعیم رحمہ اللہ نے مسند ابی حنیفہ (ص ۱۵۰،۱۵۱) میں ذکر کی ہے اور علامہ الخوارزمی نے بھی جامع المسانید (ج ۱ ص ۱۲۰، ۲۸۹،۲۹۰) میں اس کا ذکر کیا ہے۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ یہی روایت نقل کرکے لکھتے ہیں:
’’ رواہ احمد و فیہ ضعیف و مع ضعفہ لم یسم (المجمع: ۱؍۱۶۶)‘‘
کہ اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے ، اس میں ضعیف راوی ہے اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا نام نہیں لیا ۔ لیجیے جناب ! اس سے امام احمد رحمہ اللہ ہی نہیں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا