کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 28
روایت کرتے ہیں بالکل درست نہیں کیونکہ امام ابن حبان نے وضاحت کر دی ہے کہ زیر بحث روایت المختار سے ابن الاصبہانی روایت کرتے ہیں۔ اور اس کی طرف اشارہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحاتم نے بھی کیا ہے۔ بلکہ التاریخ الکبیر (ج ۳ ص ۲۳۴ ق ۱) اور الجرح والتعدیل (ج ۲ ص ۲۰۲ ق ۲ ) میں تو محمد بن سلیمان کی روایت میں بھی مختار بن عبدالله بن ابی لیلیٰ ہے ۔لہٰذا یہاں ابن ابی لیلیٰ سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ مراد لینا قطعاً غلط ہے۔ البتہ علامہ البانی کا فرمانا کہ دارقطنی رحمہ اللہ کی روایت میں قیس ، ابن الاصبہانی سے صراحۃً عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ کہتے ہیں تو یہ بھی محل نظر ہے۔ قیس بذات خود قابل اعتبار نہیں۔امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس سند کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ثانیاً: دارقطنی رحمہ اللہ کی سند ہی سے یہ روایت کتاب القراء ۃ(ص ۱۳۲) میں موجود اوراس میں ’’عبدالله بن ابی لیلیٰ‘‘ ہے، عبدالرحمن نہیں ، اور اس کی تائید العلل للدارقطنی (ج ۴ ص ۲۰) سے ہوتی ہے کہ ’’ یرویہ الکوفیون عن عبدالرحمن بن الاصبہانی عن المختار بن عبداللّٰه عن ابیہ عن علی‘‘ کہ کوفی راوی اسے ابن الاصبہانی سے مختار عن ابیہ کی سند سے روایت کرتے ہیں۔ لہٰذا بنظر انصاف دیکھا جائے تو عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ یہاں بھی محل نظر ہے۔ اس لیے علامہ البانی کی بات درست نہیں۔
مزید برآں یہ بھی کس قدر دھوکا اور مطلب پرستی ہے کہ محمد بن سلیمان کی سند کے بارے میں تو علامہ البانی پر اعتماد کیا جائے مگر ابن ابی شیبہ، دارقطنی اور بیہقی کے حوالے سے عبیدالله بن ابی رافع عن علی کے اثر کو جو انھوں نے صحیح کہا اسے قبول نہ کیا جائے۔ بلکہ علامہ ماردینی وغیرہ نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مطلقاً قراء ۃ خلف الامام کا انکار کیا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان کی بھی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جہری میں نہیں البتہ سری میں خلف الامام قراء ۃ کے قائل تھے (ارواء :ج ۲ ص ۲۸۲ ،۲۸۳) ۔مگر ڈیروی صاحب نے اس سے بھی چپ سادھ لی ہے۔ اس روایت پر بات بالکل چل نکلی ہے تو یہ بھی دیکھ لیں ۔
ایک حنفی محدث کی خیانت
مولانا محمد حسن رحمہ اللہ فیض پوری جنھیں مولانا صفدر صاحب بھی مولانا محدث محمد حسن