کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 279
شاگرد یوسف بن احمد رحمہ اللہ الصیدلانی کو مجہول کہنا درست نہیں۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے التذکرہ (ج ۳ ص ۱۰۲۰) میں انھیں مسند مکہ اور السیر (ص ۲۷) میں محدث مکہ کے عظیم لقب سے یا دکیا ہے۔ وہ ۳۸۹ ھ میں فوت ہوئے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تاریخ اسلام (ص ۱۷۸) میں بھی اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے سیرۃ ابی حنیفہ کے نام سے کتاب بھی لکھی ہے۔ خطیب نے تاریخ بغداد میں اسی سند سے ۹۱ نصوص نقل کی ہیں جیسا کہ دکتور اکرم ضیاء العمری نے موارد الخطیب البغدادی (ص ۵۶۶) میں نقل کیا ہے۔ اور ڈیروی صاحب کے ممدوح علامہ الکوثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ابو یعقوب یوسف بن احمد الصید لانی المکی الحافظ المعروف بابن الدخیل المصری صاحب العقیلی (واویتہ ) المتوفی سنۃ ۳۸۸ ھ(التانیب ص۴۹)
علامہ کوثری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ انھوں نے گویا عقیلی کے رد میں مناقب ابی حنیفہ لکھی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں امام عقیلی رحمہ اللہ نے جو جرح کی ہے وہی اس کتاب کی تالیف کا سبب ہے۔ مگر افسوس ڈیروی صاحب کے نزدیک وہ بھی مجہول ہے۔ اس وضاحت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حافظ ابن الدخیل کو مجہول کہنا بھی درست نہیں۔ لیکن جب خود الضعفاء میں یہ قول موجود ہے تو یوسف رحمہ اللہ بن احمد پر اعتراض ہی فضول اور محض دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا ناکام بہانہ ہے۔
پھر یہ کہنا :’’ عقیلی کا استاد سلیمان بن داو‘د العقیلی بھی مجہول ہے‘‘ سراسر دھوکا اور بددیانتی پر مبنی ہے کیونکہ اس قول کی سند میں سلیمان رحمہ اللہ بن داو‘د کا سرے سے کہیں ذکر ہی نہیں بلکہ سلیمان دوسرے قول کا راوی ہے جس میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوحنیفہ یکذب اور توضیح میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ تاریخ بغداد میں جعفر بن محمد فریابی ،سلیمان رحمہ اللہ کا متابع ہے ۔ اس لیے ڈیروی صاحب کا سلیمان رحمہ اللہ کو مجہول کہنے کا اعتراض بھی بے کار ہے۔ البتہ اس کی سند میں عثمان رحمہ اللہ بن جعفر بن محمد السبیعی ہے۔ ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’ تاریخ بغداد (ج ۱۱ ص ۲۹۶) میں اس کا ذکر ہے لیکن کوئی توثیق کا کلمہ موجود نہیں‘‘ (ایک نظر: ص