کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 278
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ڈیروی صاحب کو امام صاحب رحمہ اللہ کے دفاع میں امام ابونعیم رحمہ اللہ کی یہ کمزوری نظر آئی تواسے ذکر کر دیا۔ مگر امام ابن رحمہ اللہ مندہ کا ان سے جو سلوک تھا کیا وہ ان کے نزدیک قابل تحسین ہے ؟ بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ
’’ ان ابانعیم الحافظ ذکر لہ ابن مندہ فقال کان جبلاً من الجبال‘‘
حافظ ابونعیم رحمہ اللہ کے ہاں ابن مندہ کا ذکر ہوا توانھوں نے کہا ابن رحمہ اللہ مندہ (علم کے) پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ تھے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فھذا یقول ابونعیم مع الوحشۃ الشدیدۃ التی بینہ و بینہ۔ (السیر: ج ۱۷ ص ۳۲)
د و نو ں کے ما بین شد ید و حشت کے با و جو د ابونعیم رحمہ اللہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں۔ امام ابونعیم رحمہ اللہ تو پھر بھی امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے بارے میں رطب اللسان ہیں مگر کیا امام ابن رحمہ اللہ مندہ سے بھی یہ ثابت ہے ؟ مگر افسوس مجرم پھر بھی امام ابونعیم رحمہ اللہ ہی ۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون۔!
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
راقم نے توضیح (ج ۲ ص ۶۳۵) میں امام احمد رحمہ اللہ کے دونوں قول نقل کیے ہیں۔ ایک حدیث ابی حنیفۃ ضعیف کے الفاظ سے ہے۔ اور یہ بھی عرض کیا ہے کہ امام عقیلی رحمہ اللہ نے یہ قول بواسطہ عبداللّٰه بن احمد قال سمعت ابی نقل کیا ہے جس کے صحیح ہونے میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ خطیب بغدادی نے یہی قول امام عقیلی رحمہ اللہ کے واسطہ سے تاریخ بغداد میں نقل کیا ہے۔
ڈیروی صاحب کی بددیانتی
اب ڈیروی صاحب کی بددیانتی دیکھیے، لکھتے ہیں:’’ پہلی سند میں عتیقی رحمہ اللہ کا استاد یوسف رحمہ اللہ مجہول ہے۔ پھر عقیلی کا استاد سلیمان بن داو‘د العقیلی بھی مجہول ہے‘‘ (ایک نظر: ص ۳۱۱)
حالانکہ خطیب نے یہ قول امام عقیلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے جسے الضعفاء الکبیر (ج ۴ ص ۲۸۵) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا بعد کی سند پر کلام کرنا سراسر بددیانتی پر مبنی ہے۔ پھر امام عقیلی رحمہ اللہ کے