کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 277
ص ۲۰۱) کے حوالے سے یہ بھی نقل کر دیا ہے کہ حافظ ابن رحمہ اللہ طاہر مقدسی فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ ابونعیم رحمہ اللہ کی آنکھ گرم رکھے یہ محدث ابن رحمہ اللہ مندہ پر کلام کرتا ہے اور لوگوں کا اس کی امامت پر اجماع ہے اور سکوت کرتا ہے ’’ لاحق‘‘ سے ،جس کے کذب پر اجماع ہے‘‘ (ایک نظر: ص ۳۱۰) اولاً: تو یہ ’’لسان المیزان‘‘ کی بجائے دراصل میزان الاعتدال (ج ۱ص ۱۱۱) کی عبارت ہے۔ ثانیاً میزان اور لسان میں اس کے بعد یا اس سے پہلے جو لکھا گیا ہے۔ ڈیروی صاحب نے اس کا ذکر نہ کرکے بڑی بے انصافی کی ہے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں امام ابونعیم رحمہ اللہ اور امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے مابین ایک اعتقادی مسئلہ کے بارے میں اختلاف تھا۔ جس طرح امام ابونعیم رحمہ اللہ نے ابن مندہ رحمہ اللہ پر کلام کیا ہے۔ اسی طرح امام ابن مندہ رحمہ اللہ نے ابونعیم رحمہ اللہ پر کلام کیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے پہلے تواس باہمی اختلاف کو نقل کیا پھر فرمایا ’’ لا اقبل قول کل منھما فی الاخر بل ھما عندی مقبولان‘‘ کہ میں ان دونوں کا ایک دوسرے کے بارے میں کلام قبول نہیں کرتا، بلکہ وہ دونوں میرے نزدیک مقبول ہیں۔ پھر حافظ ابن رحمہ اللہ طاہر کا قول جسے ڈیروی صاحب نے نقل کیا ہے لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: کلام الاقران بعضھم فی بعض لا یعبأ بہ ۔الخ ’’کہ معاصرین کا ایک دوسرے کے خلاف کلام قابل اعتبار نہیں۔‘‘ لہٰذا جب یہ کلام محض معاصرانہ چپقلش اور ایک مسئلہ کے مابین اختلاف کے نتیجہ میں ہے اور دونوں کا کلام مردود ہے توا ب امام ابونعیم رحمہ اللہ کے کلام اور جرح کو آڑ بنا کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر ان کی جرح کے بارے میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنا کہاں کا انصاف ہے ؟ جب کہ امام صاحب پر یہ جرح کرنے میں وہ منفرد نہیں۔ خود علامہ ذہبی رحمہ اللہ بھی ان کے ہم نوا ہیں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرآئے ہیں اور توضیح میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے (التذکرہ : ص ۴۵۹، السیر: ج ۱۷ ص ۴۶۲) میں امام ابونعیم کے ترجمہ میں اسی طرح امام ابن مندہ کے ترجمہ میں (السیر: ج ۱۷ ص ۳۲،۳۴،۴۱) بھی ان دونوں بزرگوں کے مابین اختلاف و مخاصمت کا ذکر کیا اور دونوں کے کلام کو قابل اعتناقرار نہیں دیا۔