کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 276
اور اس کے حواشی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بلکہ شیخ ابوغدہ نے اس حوالے سے تیس شواہد ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اصلاً تو یہ جملہ اپنے اصلی حقیقی معنی میں استعمال ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ ایسا ہو جو دلالت کرتا ہو کہ یہاں مراد قلیل الحدیث ہے۔ اور امام یحییٰ بن معین نے تو یہاں لم یکن فی الحدیث بشیء فرمایا ہے ۔ اس لیے یہاں اسے حقیقی معنی میں ہی محمول کیا جائے گا کہ وہ حدیث میں کچھ بھی نہیں۔ بالخصوص جب کہ انھوں نے لا یکتب حدیثہ بھی امام صاحب کو کہا ہے اور یہ دونوں کلمات جرح کے ایک ہی مرتبہ میں شمار ہوتے ہیں۔
اما م ابونعیم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
توضیح الکلام (ج ۲ ص ۶۳۷) میں امام ابونعیم رحمہ اللہ اصفہانی کا کلام مذکور ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خلق قرآن کے قائل تھے۔ ان کے مروی کلام سے کئی بار توبہ کرائی گئی ، بہت خطائیں اور غلطیاں کرتے تھے۔ جس کے جواب میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خلق قرآن کے قائل نہ تھے ، نہ اس کا کوئی کلام ردی تھا نہ اس سے توبہ کرائی گئی اور کثیر الاوہام والخطا بھی جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔‘‘(ایک نظر: ص ۳۱۰)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خلق قرآن کے قائل تھے یا نہیں اور اس سے توبہ کرائی گئی یا نہیں ہمارا موضوع نہیں تاہم یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ تنہا ابو نعیم رحمہ اللہ نے ہی نہیں کہی اور بہت سے محدثین نے بھی کہی ہے جس کی تفصیل اللمحات الی ما فی انوار الباری من الظلمات کی دوسری جلد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نیز اس حوالے سے کتاب السنہ للامام عبدالله بن احمد اور امام احمد کی العلل وغیرہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اسی طرح کثیر الاوہام والخطأ کہنے میں میں بھی امام ابونعیم منفرد نہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ ، امام ابن عدی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ ، علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یہ جرح کی ہے ۔ لہٰذا اسے جھوٹا پروپیگنڈہ کہنا بجائے خود جھوٹ ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ وغیرہ کی جرح بھی اس کی مؤید ہے۔
ڈیروی صاحب کی بے انصافی
یہاں ڈیروی صاحب نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے لسان المیزان (ج۱