کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 275
امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام ابوحنیفہ کے متعلق امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ’’ لا یکتب حدیثہ‘‘اور ’’ کان یضعف فی الحدیث‘‘ کے الفاظ سے جرح کی ہے اور اس کے بارے میں ڈیروی صاحب کے شکوک و شبہات کا ازالہ اور ان توہمات کا پردہ ہم پہلے بحمدالله دھوکانمبر۲۱،۲۲ میں تار تار کر آئے ہیں۔ جس کے اعادہ کی یہاں ضرورت نہیں۔ الکامل لابن عدی رحمہ اللہ میں امام ابن معین رحمہ اللہ کی اس جرح کا جس ڈھٹائی سے انھوں نے انکار کیا ہے اس کی حقیقت بھی پہلے گزر چکی ہے۔ ہم یہاں مزید یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے اسی حوالے سے ایک اور قول بھی مروی ہے ۔ چنانچہ امام عبدالله بن احمد کتاب السنۃ میں لکھتے ہیں: حدثنی ابوالفضل ثنا یحي بن معین قال کان ابوحنیفۃ مرجئا و کان من الدعاۃ و لم یکن فی الحدیث بشیء وصاحبہ ابویوسف لا بأس بہ۔ (السنۃ : ج ۱ ص ۲۲۶) ’’کہ مجھے ابوالفضل رحمہ اللہ نے بیان کیا (وہ کہتے تھے) مجھے یحییٰ بن معین نے بیان کیا کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ مرجی تھے اور اس کے داعی تھے اور حدیث میں کچھ نہ تھے۔ ان کے ساتھی ابویوسف لا بأس بہ ہیں۔‘‘اس قول کی سند بھی بالکل صحیح ہے ۔ا بوالفضل ، امام عبدالله بن احمد کے مشہور استاد حاتم بن لیث الخراسانی الجوہری ہیں۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ان کا ذکر کیا ہے اور بعض نے کہا ہے:’’کان ثقۃ ثبتا متقنا حافظاً‘‘ (تاریخ بغداد: ج ۸ ص ۲۴۵، تعجیل المنفعہ : ص ۷۵) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے: الحافظ المکثر الثقۃ (السیر : ج ۱۲ ص ۵۱۹) لہٰذا اس سند کے صحیح ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔ ہم یہاں امام صاحب کے مرجی ہونے اور ارجاء کی دعوت دینے کے سلسلے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ بحث طویل ہو جائے گی اور اس کا تعلق بھی ہمارے موضوع سے خارج ہے ۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ جب راوی کے بارے میں لیس بشیئ کہتے ہیں تو اس سے کبھی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ راوی قلیل الحدیث ہے اور اس سے جرح اور راوی کی تضعیف بھی مراد ہوتی ہے جس کی تفصیل الرفع والتکمیل (ص ۱۵۲)