کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 273
بلکہ شاید محمد بن حسن شیبانی کا وہم ہے ۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: وقد رواہ القاسم بن الحکم عن ابی حنیفۃ علی الصواب فقال فیہ ابن ابی زیاد ، فلعل الوھم من صاحبہ محمد بن الحسن۔ (بیان الوھم : ج ۳ ص ۵۱۹) لیکن امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب الآثار( ص ۷۶) میں صحیح طور پر جب عبیدالله بن ابی زیاد ہے تو نام کے وہم میں امام محمد رحمہ اللہ بن حسن کی طرف انتساب بھی درست نہیں اور اس کا اشارہ حافظ ابن حجر نے الدرایہ (ج ۲ ص ۲۳۶) میں بھی کیا ہے۔ بلکہ یہی روایت جامع المسانید( ج۱ ص ۵۰۴،۵۰۸) میں ہے اور اس میں بھی ابن ابی زیاد ہے۔ البتہ کتاب الآثار اور جامع المسانید میں عبدالله بن ابی زیاد ہے مگر یہ صحیح نہیں ، صحیح عبیدالله بن ابی زیاد ہے اور امام ابونعیم نے مسند الامام ابی حنیفہ (ص ۱۸۱) میں بھی امام صاحب کا استاد عبیدالله بن ابی زیاد ذکرکیا ہے اور قاسم بن الحکم عن ابی حنیفہ رحمہ اللہ کی سند سے یہ روایت بھی ذکر کی ہے تاریخ جرجان ( ص ۲۵۴) میں بھی یہ روایت ایک اور سند سے ابوحنیفہ عن عبیدالله بن ابی زیاد کے نام سے مروی ہے۔ اس لیے امام صاحب کی طرف نام میں وہم کا انتساب درست نہیں اور نہ ہی امام محمد رحمہ اللہ بن حسن کا یہ وہم ہے جیسا کہ علامہ ابن القطان رحمہ اللہ کا خیال ہے لیکن اس کا یہ نتیجہ نہیں کہ مرفوع بیان کرنے میں جو انھوں نے اما م صاحب کو ضعیف قرار دیتے ہوئے ان کا وہم قراردیا ہے یہ بھی صحیح نہیں جیسا کہ ڈیروی صاحب کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق نہیں۔‘‘ رہی یہ بات کہ مولانا ڈیانوی رحمہ اللہ نے حاشیہ دارقطنی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الدرایہ میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس میں منفرد نہیں ۔ خود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے آخر حج میں اسے ایمن بن نابل عن عبیدالله سے نقل کیا ہے تو یہ بات محل بحث و نظر ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ محدث ڈیانوی رحمہ اللہ التعلیق المغنی میں اکثر و بیشتر نصب الرایہ سے نقل کرتے ہیں اور الدرایہ ، نصب الرایہ کی ہی تلخیص ہے۔ اور نصب الرایہ (ج ۴ ص ۲۶۵) میں بلاشبہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے یہ بات فرمائی ہے کہ دارقطنی رحمہ اللہ ہی میں مرفوع بیان کرنے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا متابع ایمن رحمہ اللہ موجود ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کتاب البیوع کی حدیث نمبر۲۲۴ کے تحت تو