کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 271
کی ہے(تقریب: ص ۱۳۳) تہذیب (ج ۳ ص ۷۶،۷۷) میں اس کا تفصیلی ترجمہ دیکھا جا سکتا ہے۔ سخت حیرت ہے کہ ثقات کے مقابلے میں ایسے متروک اور کذاب کی روایت پیش کی جاتی ہے بلکہ علامہ زبیدی رحمہ اللہ نے تو امام صاحب کے مذہب کی سب سے پہلی دلیل یہی خارجہ رحمہ اللہ کی روایت نقل کی ہے۔ اِنَّ فی ذٰلک لعبرۃ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری روایت
راقم نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ ان اللّٰه حرم مکۃ فحرم بیع رباعھا ۔۔الخ کو مرفوع بیان کرنے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہم ہے۔(توضیح: ج ۲ ص ۶۳۹) جس کے متعلق جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں قلت اخرجہ الدارقطنی فی آخر الحج (ج ۲ ص ۳۰۰) عن ایمن بن نائل عن عبیداللّٰه بن ابی زیاد عن ابی نجیح عن عبداللّٰه بن عمرو ،رفع الحدیث ، التعلیق المغنی (ج ۳ ص ۵۸) کہ دارقطنی رحمہ اللہ نے حج کے آخر میں یہ حدیث امام اعظم رحمہ اللہ کے واسطہ سے عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوع نقل کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الدرایہ (ج ۲ص ۲۳۶) میں لکھتے ہیں کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس میں منفرد نہیں بلکہ دارقطنی رحمہ اللہ نے حج کے آخر میں اس کو مرفوع نقل کیا ہے۔ ابن قطان کا وہم ذکر کرنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق نہیں بلکہ امام محمد رحمہ اللہ بن الحسن کے متعلق ہے جو کہ صحیح نہیں۔ (ایک نظر: ص ۳۰۷)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے السنن (ج ۳ ص ۵۷) میں محمد بن الحسن عن ابی حنیفہ عن عبیدالله بن ابی یزید کی سند سے روایت نقل کی جس کے آخر میں انھوں نے فرمایا:
کذا رواہ ابوحنیفۃ مرفوعاً و وھم ایضاً فی قولہ عبیداللّٰه ابن ابی یزید و انما ھو ابن ابی زیاد القداح والصحیح أنہ موقوف۔
اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اسے مرفوع بیان کیا ہے اور عبیدالله رحمہ اللہ بن ابی یزید کہنے میں بھی وہم ہوا ہے۔ وہ ابن ابی زیاد القداح ہے اور صحیح یہ کہ یہ روایت موقوف ہے۔
اس کے بعد انھوں نے عیسیٰ رحمہ اللہ بن یونس اور محمد رحمہ اللہ بن ربیعہ کی روایات ذکر کی ہیں کہ ان