کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 269
میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قال ابوحاتم وغیرہ منکر الحدیث اسی طرح المغنی (ج ۲ ص ۴۴۱) میں ہے مگر وہاں ’’ابوحاتم ‘‘ کی جگہ قال البخاری ہے لیکن یہ درست نہیں۔ الغرض مسند احمد میں زوائد عبدالله کی یہ سند سخت ضعیف ہے۔ امام بیہقی نے السنن (ج۱ ص ۶۳) میں کہا ہے:’’ وکذلک رواہ الجماعۃ عن علی الا ما شذ منہ ‘‘ کہ اسی طرح ایک مسح کے ذکر سے ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہے الا وہ جو اس میں سے شاذ ہے۔ ابوحیہ کی یہ روایت اگر بزار میں تین مرتبہ مسح کے ساتھ مروی ہے تو ترمذی (ج۱ ص ۵۳) ابن ماجہ میں ’’ مسح براسہ مرۃ‘‘ کے الفاظ ہیں کہ ایک بار ہی مسح کیا ۔بلکہ ابوالاحوص رحمہ اللہ سے بغیر ابو داؤد الطیالسی کے کوئی بھی تین دفعہ سر کے مسح کا ذکر نہیں کرتا اور نہ ہی یہ روایت مسند طیالسی میں نظر آتی ہے۔ اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں تین بار مسح کا ذکر شاذ ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الدرایہ (ج ۱ص ۲۶) میں ترمذی سے یہ اختلاف ذکر کیا ہے کہ وہاں ایک بار مسح کا ذکر ہے ۔ مگر علامہ الزبیدی نے عقود الجواہر(ج ۱ ص ۶۱) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اسی حوالے سے ترمذی سے ’’ مسح برأسہ ثلا ثًا ثلا ثًا‘‘ نقل کیا ہے جو قطعاً غلط اور علامہ زبیدی رحمہ اللہ کا وہم ہے۔ ڈیروی صاحب اسی سلسلے میں مزید لکھتے ہیں السنن الکبریٰ (ج ۱ ص ۶۳) میں ابن جریج عن محمد بن علی بن حسین عن ابیہ عن جدہ عن علی سے و مسح برأسہ ثلا ثًا نقل کیا ہے(ایک نظر: ص ۳۰۶) مگر یہ روایت بھی معلول ہے ۔ ابن رحمہ اللہ جریج مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے ۔خود ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: اس کی سند میں ابن رحمہ اللہ جریج راوی واقع ہے جو کہ ثقہ ہے مگر سخت قسم کا مدلس ہے اور یہ روایت اس نے عنعنہ سے روایت کی ہے۔ اور ایسے راوی کی روایت باتفاق محدثین حجت نہیں ہوتی۔الخ (نور الصباح : ص ۲۲۲) کیا ہم یہاں بھی ڈیروی صاحب سے اس فیصلے کی امید رکھ سکتے ہیں؟ علاوہ ازیں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے امام ابن رحمہ اللہ جریج کو جس انداز سے ہدف تنقید بنایا اور پھر ان کے متوسلین جس