کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 268
حیرت ہے کہ ایک طرف امام دارقطنی رحمہ اللہ کو ’’نیچے کی سند‘‘ کو بہانہ بنا کر ’’ مسح برأسہ ثلا ثًا‘‘ کا سرے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے نیچے کی سندوں کو نہیں دیکھا مگر امام اعظم رحمہ اللہ پر خطا کا الزام لگا دیا۔‘‘ پھر قلابازی لگاتے ہیں اور ان الفاظ کی صحت و ثبوت کے لیے مزید حوالے پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ’’نیچے کی سندوں‘‘ کی بنا پر یہ الفاظ ہی صحیح نہیں تو اب ان کی تائید چہ معنی دارد؟ اندازہ کیجیے امام دارقطنی رحمہ اللہ کو ’’نادانی، عصبیت اور ناانصافی ‘‘ کا طعنہ دینے والے خود کس قدر بے انصافی کا مظاہرہ کررہے ہیں؟ پھر دارقطنی رحمہ اللہ (ج۱ ص ۹۲) کے حوالے سے عبدالملک بن سلع عن عبدخیر کی جس روایت کا اشارہ انھوں نے کیا۔ کیا اس کی سند ڈیروی صاحب نے دیکھ لی کہ وہ بالکل صحیح ہے؟جب کہ عبدالملک رحمہ اللہ کا بیٹا مسہر رحمہ اللہ ’’ لین الحدیث‘‘ ہے(تقریب: ص ۴۹۳) ۔ پھر اس میں سر کے مسح کا ذکر ہی تین بار نہیں بلکہ ’’ واذنیہ ثلا ثًا‘‘ بھی ہے کہ کانوں کا مسح بھی تین بار کیا۔ جو بجائے خوداس کے شذوذ اور ضعف پر دال ہیں اور مسہر رحمہ اللہ کے برعکس امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابوعبید قاسم بن سلام کے استاد مروان رحمہ اللہ بن معاویہ، عبدالملک رحمہ اللہ سے ایک بار مسح کا ہی ذکر کرتے ہیں۔(مسند احمد: ج۱ ص ۱۱۰،کتاب الطہور رقم: ۳۲۹) رہی ابوحیہ عن علی کی روایت جو (مسند بزار ج ۲ ص ۳۱۰، مسنداحمد: ج ۱ ص ۱۵۸) میں ہے تواس میں ابواسحاق مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ مسند احمد میں یہ زوائد عبدالله رحمہ اللہ میں سے ہے ۔ امام احمد کی سند سے نہیں اوراس کا راوی العلاء بن ھلال الرقی ضعیف ہے ۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے منکر الحدیث ضعیف الحدیث کہا ہے اور فرمایا اس کے پاس یزید رحمہ اللہ بن زریع سے مرفوع روایات ہیں۔ ابن حبان فرماتے ہیں: یہ اسانید کو بدل دیتا تھا اس سے احتجاج درست نہیں۔ خطیب کہتے ہیں اس کی بعض احادیث منکر ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس نے اپنے باپ سے منکر حدیث بیان کی ہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ یہ اس کا قصور ہے یا اس کے باپ کا۔(تہذیب: ج ۸ ص ۱۹۴) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اور اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے المیزان (ج ۳ ص ۱۰۶) میں کوئی ادنیٰ کلمہ بھی توثیق کا اس کے بارے میں نقل نہیں کیا مگر تعجب ہے اس کے باوجود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب (ص ۴۰۶) میں لکھا ہے:’’ فیہ لین‘‘ جب کہ دیوان الضعفاء (ص ۲۱۸)