کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 267
جہالت بھی ہو تو وہ کوئی مضر نہیں۔ مگر یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے استاد الحسن بن سعید کا تذکرہ خطیب رحمہ اللہ بغدادی نے اپنی تاریخ (ص ۳۴۶ ج ۷) میں کیا ہے اور اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ رہے ان کے دادا الحسن بن یوسف توا ن کا تذکرہ بھی تاریخ بغداد (ج ۷ ص ۴۵۵) میں موجود ہے۔ مگر ان کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل منقول نہیں۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ وہ امام عباس دوری اور امام ابن ابی الدنیا کے استاد تھے۔ اور یہ روایت الحسن بن سعید نے ’’ وجادۃ‘‘ اپنے دادا کی کتاب سے لی ہے جو تحمل روایت کا ایک طریقہ ہے جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت ایک بحث کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ اس لیے اگر اس دوسری سند میں کچھ کلام ہے تو یہ پہلی سند کی مؤید ہے اور پہلی سند کے ان دونوں راویوں کو خود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اس لیے ڈیروی صاحب کا فرمانا کہ ’’امام دارقطنی نے نیچے کی سند وں کو نہیں دیکھا‘‘ ان کی سراسر بے خبری کا نتیجہ ہے یا وہ حسب عادت اپنے قارئین کو دھوکا میں مبتلا کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے تواس کی دو سندیں ہی ذکر کی ہیں ۔ امام ابونعیم رحمہ اللہ اصفہانی نے مسند الامام ابی حنیفہ رحمہ اللہ (ص ۹۸،۹۹) میں چھ مختلف اسانید سے یہ روایت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کی ہے اور مزید کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے یہ روایت الحسن بن فرات ، المقری رحمہ اللہ ، خارجہ رحمہ اللہ بن مصعب، حماد بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ ، الحسن رحمہ اللہ بن زیاد اور اسحاق رحمہ اللہ بھی بیان کرتے ہیں۔ جامع المسانید (ج۱ ص ۲۳۴،۲۳۹) میں بھی یہ روایت مختلف اسانید سے بیان ہوئی ہے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ان الفاظ کا انکار ڈیروی صاحب کی اپنی نادانی ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کو نادانی کا طعنہ حماقت پر مبنی ہے۔ موصوف مزید لکھتے ہیں:’’پھر عبدخیر سے ’’ مسح برأسہ ثلا ثًا ‘‘عبدالملک رحمہ اللہ بن سلع نے بھی روایت کیا ہے(دارقطنی : ج۱ ص ۹۲) امام بیہقی رحمہ اللہ نے خلافیات میں بطریق ابوحیہ عن علی سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور مسند بزار (ج ۴ ص ۴۳) میں اور مسند امام احمد (ج ۱ص ۱۵۸) میں بھی ہے۔ نیز التلخیص (ج ۱ ص ۷۵) اور الدرایہ (ج۱ ص ۲۷) میں اس پر بحث ہے۔ (ایک نظر: ص ۳۰۶)