کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 266
یہ روایت قاضی ابویوسف کے واسطہ سے نقل کی ہے ۔ جسے قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الآثار (ص ۲ ) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے ’’نیچے کی سندوں‘‘ کو آڑ بنا کر جو بہانہ ڈیروی صاحب نے بنایا وہ تارعنکبوت کی طرح تار تار ہوجاتا ہے۔
رہی سنن دارقطنی کی سند تواس کے متعلق ڈیروی صاحب کے خدشات کا خلاصہ یہ ہے کہ امام دارقطنی کا استاد محمد بن محمود الواسطی مجہول ہے، اس کے استاد شعیب بن ایوب کو ابن حبان نے الثقات میں یخطئ ویدلس کہاہے، دوسری سند میں الحسن بن سعید المروزی نے اپنے دادا کی کتاب دیکھی ہے ۔ اس سے سماع ہے یا نہیں، پھر حسن بن سعید اور اس کے دادا کیسے ہیں ؟ثقہ ہیں یا مجہول ہیں؟(ایک نظر: ص ۳۰۶)
مگر ڈیروی صاحب کا یہ اعتراض بے خبری کا نتیجہ ہے کیونکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے استاد محمد بن محمود رحمہ اللہ کو خود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ثقہ قرارد یا ہے(سوالات السہمی ص ۲۵۲ نمبر۳۶۷) رہے شعیب رحمہ اللہ بن ایوب تو ڈیروی صاحب نے تہذیب کے حوالے سے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول نقل کیا۔ جب کہ تہذیب ہی میں امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ ثقہ ہیں۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وہ ثقہ مامون‘‘ ہے۔ اب یہ دیانت کی کون سی معراج ہے ؟کہ تہذیب سے صرف امام ابن حبان کا قول ذکر کیا جائے اور توثیق کو نظر انداز کر دیا جائے۔ پھر امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا اور فرمایا یخطئ و یدلس ،مگر امام دارقطنی رحمہ اللہ کی زیر بحث سند میں تو شعیب رحمہ اللہ نے تدلیس نہیں کی بلکہ ’’ ناابویحيٰ‘‘ کہہ کر سماع کی تصریح کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب (ص ۱۴۶) میں ’’ صدوق یدلس‘‘ کہا ہے۔ لہٰذا تصریح سماع کے بعد اس کی روایت پر اعتراض کج بحثی کا نتیجہ ہے۔ جب امام دارقطنی رحمہ اللہ نے محمد بن محمود الواسطی اور شعیب بن ایوب دونوں کو ثقہ قرار دیا ہے تو اب ڈیروی صاحب کی لاف زنی کون سنتا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے نیچے کی سند کو نہیں دیکھا۔‘‘
اس طرح ڈیروی صاحب کا دوسری سند کے بارے میں کہنا کہ ’’الحسن بن سعید اور اور اس کے دادا حسن بن یوسف ثقہ ہیں یا مجہول اور الحسن کا اپنے دادا حسن بن یوسف سے سماع ہے یا نہیں‘‘ محض وسوسہ ہے۔ پہلی سند جب حسن یا صحیح ثابت ہو چکی تو دوسری سند میں