کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 263
حدیث کی بنا پر کلام ہے اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اس روایت کی وجہ سے فرمایا ہے اگر میرے پاس گھوڑا ہوتا تو سوید رحمہ اللہ کے خلاف لڑائی کے لیے نکلتا۔ لہٰذا جب خطیب رحمہ اللہ بھی اس روایت کومردود قرار دیتے ہیں اور یہی موقف حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کاہے کہ یہ روایت باطل ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خطیب رحمہ اللہ اس کا سبب سوید رحمہ اللہ کو قرار دیتے ہیں جب کہ حافظ ابوعلی رحمہ اللہ سوید رحمہ اللہ کے شاگرد پر یہ اعتراض کرتے ہیں مگر اس پر اعتراض سے بھی بالآخرخاموشی اختیار کرتے ہیں۔امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس میں احمد رحمہ اللہ بن الحسن الصوفی کا وہم قرار دیا ہے۔گویا بیان علت میں اختلاف ہے۔ روایت کے معلول و مردود ہونے میں اختلاف نہیں۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خطیب رحمہ اللہ بغدادی کے نام سے حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کے المتعنت ہونے کا ثبوت غلط بیانی اور سراسر دھوکا پر مبنی ہے۔
اسی طرح ڈیروی صاحب نے یہ بھی فرمایاکہ ’’ابوعلی رحمہ اللہ الحافظ امام طبرانی رحمہ اللہ کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا تعنت علی حافظ حجۃ یہ سرکشی ہے ایک حافظ حجۃ کے بارے میں ۔‘‘ (ایک نظر: ص ۳۰۵)
بلاشبہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا : ھذا تعنت کہ یہ ایک حافظ حجۃ کے بارے میں تعنت ہے ۔ یعنی سختی اور تشدد ہے تعنت کے معنی ’’سرکشی‘‘ بجائے خود سرکشی کا نتیجہ ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل کے حوالے سے ’’معتدلین ‘‘ ،’’متعنتین‘‘ اور ’’متساہلین‘‘ کی اصطلاح سے اصول حدیث کا ہر طالب علم واقف ہے کہ کچھ وہ ہیں جو اعتدال سے کام لیتے ہیں اور کچھ وہ جو تشدد اختیار کرتے ہیں اور معمولی بات پر بھی سخت جرح کرتے ہیں۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ ، امام ابن معین رحمہ اللہ ، امام یحییٰ القطان رحمہ اللہ ،امام نسائی رحمہ اللہ کو متعنتین میں شمار کیا جاتا ہے۔ غور کیجیے ایسے تمام محدثین کو ’’سرکش‘‘ ہی قرا ر دیا جائے گا۔
امام طبرانی رحمہ اللہ پر بھی بلاشبہ امام ابوعلی رحمہ اللہ نے سخت جرح کی ، جس کا پس منظر امام حاکم رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ وہ امام طبرانی رحمہ اللہ کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں۔ میں نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا توانھوں نے فرمایا: ہم ابوخلیفۃ رحمہ اللہ کے دروازہ پر جمع ہوئے ۔ حدیث : امرت ان اسجد علی سبعۃ اعضاء کے طرق و اسانید کاذکر ہوا تو