کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 261
سمجھتے تھے، جیسے ان کا یہ قول قبول نہیں اور کوئی قول بھی قبول نہیں، بالخصوص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے۔ مگر ڈیروی صاحب نے وہ قول نقل نہیں کیا کہ وہ ابن حمید کو کیا سمجھتے تھے۔ اگر وہ ان کا قول نقل کر دیتے توا ن کی چوری واضح ہو جاتی اور اس قول کی حقیقت بھی معلو م ہو جاتی۔ چنانچہ دیکھیے اس قول کے الفاظ یوں ہیں: قال ابوعلی النیسابوری قلت لابن خزیمۃ لو اخذت الاسناد عن ابن حمید فان احمد بن حنبل قد احسن الثناء علیہ قال انہ لم یعرفہ ولو عرفہ کما عرفنا ما اثنی علیہ اصلاً ۔(میزان: ۳/۵۳۰، تہذیب: ۹/۱۳۱) حافظ ابوعلی رحمہ اللہ نیسابوری فرماتے ہیں میں نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے عرض کیا : کاش !آپ ابن حمید سے اسناد پکڑتے کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل نے اس کی بڑی تعریف کی ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: انھوں نے ابن حمید رحمہ اللہ کو پہچانا نہیں۔ا گر وہ اس کو پہچان لیتے ، جس طرح ہم نے اسے پہچانا ہے تو وہ اس کی بالکل تعریف نہ کرتے۔ لیجیے جناب! یہ ہے ابن حمید رازی کو اچھا سمجھنے کی حقیقت، اچھا سمجھا اوراس کی تعریف کی۔ (اور وہ تعریفی کلمات التہذیب : ۹؍۱۲۸ میں دیکھے جا سکتے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ ہی نہیں یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے) تو امام احمد رحمہ اللہ کے اسی قول کی بنیاد پر حافظ ابو علی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ آپ بھی اس سے روایت لے لیں توانھوں نے جو فرمایا وہ آپ کے سامنے ہے۔ اب ا س کے بعد حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کے بارے میں سمجھنا کہ وہ ابن حمید رحمہ اللہ کو اچھا سمجھتے تھے بہت بڑا دھوکا ہے۔ ان کا امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی وضاحت سن کر خاموش ہو جانا۔ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان سے متفق ہو گئے تھے۔ پھر اگر ابن حمید کے بارے میں اچھی رائے رکھنا باعث جرم ہے تو امام احمد رحمہ اللہ اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ بھی کیا اسی جرم کے مرتکب نہیں؟ ایک اورغلط بیانی اسی طرح ڈیروی صاحب نے لکھا ہے :خطیب لکھتے ہیں: ابوعلی رحمہ اللہ المتعنت (تاریخ