کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 260
ایسے مرتبہ کا نہیں کہ اس کاکلام ابوحامد رحمہ اللہ کے حق میں سنا جائے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۳۰۴) ۔ اولاً: تو یہ قول علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا نہیں بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا ہے۔ چنانچہ ان کے شاگرد السلمی رحمہ اللہ نے پوچھا کہ ابوحامد بن الشرقی کیسے ہیں ؟توانھوں نے فرمایا: ’’ ثقۃ مأمون امام‘‘ سلمی رحمہ اللہ نے عرض کیا کہ ابن عقدہ رحمہ اللہ اس میں کلام کرتے ہیں تو انھوں نے فرمایا:سبحان الله ۔! تمہارا کیا خیال ہے کہ ابن شرقی رحمہ اللہ کے بارے میں اس کاکلام مؤثر ہے ، ابن عقدہ کی بجائے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ بھی ہوتے (توا ن کا کلام بھی موثر نہ ہوتا ) میں نے کہا: حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابن شرقی رحمہ اللہ کون ہے ؟تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابوعلی رحمہ اللہ اس مرتبہ میں نہیں کہ ان کاکلام ابوحامد رحمہ اللہ کے بارے میں سنا جائے(السیر: ۱۵؍۱۲۹، میزان : ۱؍۱۵۶) جس میں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امام ابن الشرقی رحمہ اللہ کے بارے میں کسی کا کلام قابل قبول نہیں۔ اگرچہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے ہی کلام کیا ہو۔ لیکن اس کا کیا مقصد کہ اب امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی جرح بھی قابل قبول نہیں؟ قطعاً ایسا نہیں مگر ڈیروی صاحب کے ہاں شاید امام یحییٰ رحمہ اللہ کا کلام بھی اسی تناظر میں قابل قبول نہ ہو۔ علاوہ ازیں یہ حکایت اور امام دارقطنی رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کرنے والے ’’السلمی‘‘ ہیں۔ جن کا نام محمد بن حسین اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے ۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے :’’ تکلموا فیہ و لیس بعمدۃ‘‘ کہ محدثین نے اس میں کلا م کیا ہے اور وہ اچھا نہیں ہے ۔ خطیب بغدادی نے ذکر کیا ہے کہ محمد رحمہ اللہ بن یوسف القطان نے کہا ہے کہ وہ ثقہ نہیں۔ صوفیوں کے لیے احادیث گھڑا کرتا تھا(میزان : ۳؍۵۲۳، السیر: ۱۷؍۲۵۲) اور اس کی تفسیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ قرآن کی تفسیر ہے ، وہ کافر ہے (فتاویٰ ابن الصلاح : ص ۲۹) وغیرہ۔ لہٰذا جب اس حکایت کا راوی ہی قابل اعتماد نہیں تواس کی بنیاد پر امام نیسابوری پر حرف گیری کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ایک اور دھوکا ڈیروی صاحب حافظ ابوعلی رحمہ اللہ کے کلام کو ناقابل قبول قرار دینے کے لیے مزید لکھتے ہیں: ابوعلی رحمہ اللہ ، محمد بن حمیدالرازی کو اچھا سمجھتا تھا(میزان : ۳؍۵۳۰) حالانکہ محمد بن حمید الرازی کذاب ہے(ایک نظر: ص ۳۰۵) جس کا مقصد واضح ہے کہ ابن حمید الرازی کذاب کو حافظ ابوعلی رحمہ اللہ اچھا