کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 259
خالد رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا: و اما خالد فانکم تظلمون خالدا کہ تم خالد رحمہ اللہ پر ظلم کرتے ہو(بخاری مع الفتح : ج ۳ ص ۳۳۱، مسلم وغیرہ) بتلائیے آپ کے ا س فرمان کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے زکوٰۃ طلب کرنے والے اور ان کے انکار پر ان کی شکایت کرنے والوں کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ’’ ظالم ‘‘تھے؟ حنفی دیوبندی ادب تو شاید اس کو درست قرار دے مگر یہ فقیر اس کی جسارت نہیں کر سکتا۔ پھر امام حاکم رحمہ اللہ نے جو کچھ فرمایا پور ا قصہ اس پردلالت کرتا ہے کہ انھوں نے امام ابوعلی رحمہ اللہ کو ’’ظالم ‘‘ نہیں بنایا۔ ہوا یوں کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے ان سے عرض کیا کہ آپ نے جو یہ کہا ہے :’’ہمیں احمد بن حمدون نے حدیث سنائی اگر اس سے روایت کرنا حلال ہے‘‘ کیا یہ آپ نے مزاح کے طو رپر کہا ہے یا ان کی کمزوری حفظ کی بنا پر ، یا آپ نے ایسا احمد بن حمدون کی کسی حدیث کے منکر ہونے کی بنا پر کہا ہے ،تو امام ابوعلی رحمہ اللہ نے فرمایا: حدیث کی بنا پر۔ میں نے عرض کیا: آپ ان کی کس حدیث پر انکار کرتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: عبید رحمہ اللہ الله بن عمر بن عبدالله بن الفضل کی حدیث کی بنا پر۔ میں نے کہا: اسے تو اور بھی روایت کرتے ہیں، آپ جو کچھ کہتے ہیں احمد بن حمدون اس میں مظلوم ہیں۔ اس ساری بات کا تذکرہ میں نے ابوالحسین رحمہ اللہ الحجاجی سے کیا توانھوں نے میرے کلام پر رضامندی کا اظہار کیا ۔(السیر: ج ۱۴ ص ۵۵۳، التذکرۃ)
غور فرمائیے اما م حاکم رحمہ اللہ اپنے استاد امام ابوعلی رحمہ اللہ کے سامنے ان کے موقف کی تردید کرتے ہیں اور احمد رحمہ اللہ بن حمدون کو مظلوم قرار دیتے ہیں کہ اس حوالے سے جو آپ ان کی روایت لینا حلال نہیں سمجھتے یہ زیادتی ہے۔ نہ استاد نے سمجھا کہ شاگرد مجھے ’’ظالم‘‘ قرار دے رہا ہے ، نہ ہی شاگرد رشید امام حاکم رحمہ اللہ کا یہ مقصد تھا اور نہ ہی آئندہ کے لیے انھیں ’’ظالم ‘‘ قرار دے کر ان کے اقوال کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ’’ المتکلمون فی الرجال‘‘ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل نمبر۴۸۴ میں امام ابوعلی رحمہ اللہ کو ائمہ جرح وتعدیل میں شمار کیا مگر ہمارے شیخ الحدیث صاحب کی ادا نرالی ہے ۔
اسی طرح ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ علامہ ذہبی (میزان : ۱؍۱۵۶)لکھتے ہیں: ابوعلی