کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 256
کے وہم کو بیان کیا اس سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر وہ اپنا الو سیدھا نہیں کر سکتے تھے۔
اسی طرح ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ ابوعلی رحمہ اللہ نیساپوری کا استاد یحییٰ رحمہ اللہ بن علی بن محمد مجہول ہے ۔ یہ بھی محل نظر ہے۔ علامہ ابن ماکولا نے الاکمال (ج ۴ ص ۳۱۷) میں اس کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ وہ اپنے دادا کے علاوہ الضحاک رحمہ اللہ بن حجوہ ، امام عبدالملک ابن دلیل (جو امیر ابن ماکولا کے ہم سبق ہیں اور امام یعقوب رحمہ اللہ بن سفیان فسوی کے استاد ہیں) سے روایت کرتا ہے اور اس سے ابوسلیمان محمد بن الحسین الحرانی نے روایت کی ہے۔ لہٰذا یحییٰ رحمہ اللہ بن علی کو مطلقاً مجہول کہنا صحیح نہیں۔ ولعل اللّٰه یحدث بعد ذلک امراً۔
پھر اگر اسے صحیح تسلیم کر لیا جائے کہ امام صاحب سے یہ روایت بواسطہ زہری عن سبرہ عن ابیہ صحیح سند سے منقول نہیں تو کیا ’’عن زہری عن محمد بن عبیداللّٰه عن سبرہ‘‘ کی سند سے بھی یہ روایت امام صاحب نے بیان کی یا نہیں؟ اور کیا ثقات کے مقابلے میں محمد بن عبیدالله کا نام لینا وہم ہے یا نہیں؟
امام ابوعلی
جو الحسین بن علی بن یزید النیسابوری کے نام و نسب سے مشہور ہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے السیر (ج ۱۶ ص ۵۱) میں انھیں الحافظ الامام الثبت احد النقاد کے الفاظ سے یادکیا ہے اور تذکرۃ الحفاظ (ج ۳ ص ۹۰۲) میں انھیں ’’ الامام محدث الاسلام احد جھـابذۃ الحدیث‘‘ کے القاب سے یاد کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوعلی رحمہ اللہ حفظ، اتقان ، ورع ، مذاکرہ اور تصنیف میں یکتائے زمانہ تھے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے انھیں امام مہذب قرار دیا ہے ۔ ابن عقدہ جس قدر ان کی تعظیم و تکریم کرتے اتنی کسی اور کی نہیں کرتے تھے۔ حافظ خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ان جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ مگر ہمارے مہربان ڈیروی صاحب کہتے ہیں’’ابوعلی رحمہ اللہ الحافظ ظالم ہے‘‘ اسی طرح ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’باپ کی اجازت کے بغیر بے ریش بچے کو اغوا کرنا بری حرکت ہے۔ الله تعالیٰ ہماری اور ان کی خطائیں معاف فرمائے ۔‘‘(ایک نظر: ص ۳۰۴،۳۰۵)