کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 255
وذکرالدارقطنی والخطیب ان محمد بن المبارک الصوری روی عن احمد بن ابراہیم بن ابی سکینۃ و لم یذکرا لہ شیئا منکرا وسیأتی فی المحمدین ان ابن حبان ذکر ابن ابی سکینۃ فی الثقات وکذا و ثقہ ابن حزم فی حدیث اخرجہ من طریقہ عن علی بن المدینی۔ (لسان : ۱/۱۳۱،۱۳۲) اور جو امام مالک سے روایت کرتا ہے وہ اس راوی سے مقدم ہے جو قبیصہ کے طبقہ سے روایت کرتا ہے ۔ شاید یہ دو راوی ہیں۔ دارقطنی رحمہ اللہ اور خطیب رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ محمد رحمہ اللہ بن مبارک صوری، احمد رحمہ اللہ بن ابراہیم بن ابی سکینہ سے روایت کرتے ہیں اور ان دونوں نے اس کی کوئی منکرروایت ذکر نہیں کی اور محمدین کے تراجم میں ائے گا کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے ابن ابی سکینہ کو ثقات میں ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح ابن حزم نے ایک حدیث میں اسے ثقہ کہا ہے جسے انھوں نے علی بن مدینی کی سند سے ذکر کیا ہے۔‘‘ اسی طرح لسان المیزان (ج ۵ ص ۲۰) میں محمد بن ابراہیم بن ابی سکینہ رحمہ اللہ کا ترجمہ ذکر کیا ہے او رلکھا ہے کہ وہ ہشیم ، ابویوسف اور مالک کے شاگرد ہیں اور اس سے عمر بن سنان، یحییٰ بن علی بن ہاشم اور محمد بن مبارک روایت کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس سے خطا ہوتی ہے۔ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ مزید عرض ہے کہ علامہ السمعانی نے بھی الانساب (ج ۲ ص ۲۴۶) میں اس کا ذکر کیا اور کوئی کلام نقل نہیں کیا۔ اسی طرح امام ابن ماکولا نے الاکمال (ج ۴ ص ۳۱۷) میں اس کا ذکر کیا اور اس کے اساتذہ میں محمد بن حسن شیبانی کا بھی نام لیاہے اور کوئی جرح نقل نہیں کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میزان میں جو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے احمد بن ابراہیم الحلبی رحمہ اللہ کو احمد بن ابراہیم بن ابی سکینہ قرار دیا ہے وہ ان کا وہم ہے۔ دونوں راوی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ابن ابی سکینہ ثقہ ہے اور یہی اس سند کا راوی ہے۔ جب کہ دوسرا کذاب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے المغنی (ج۱ ص ۳۳) میں صرف احمد بن ابراہیم الحلبی رحمہ اللہ کو ہی ذکر کیا ہے اوراسے ابن ابی سکینہ بھی قرار نہیں دیا۔ تعجب ہے کہ ڈیروی صاحب لسان المیزان کا حوالہ دیتے ہیں مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو وضاحت کی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ