کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 249
مالک رحمہ اللہ کی حدیث کا طبیب اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہوں۔ گویا امام مالک رحمہ اللہ اور ابن رحمہ اللہ اسحاق میں یہ بعد معاصرانہ چشمک کا نتیجہ تھا اور اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ابن رحمہ اللہ ا سحاق امام مالک رحمہ اللہ کے نسب میں کلام کرتے تھے۔ چنانچہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کذلک کان کلام مالک فی محمد بن اسحاق لشیء بلغہ عنہ تکلم فی نسبہ و علمہ الخ۔ (جامع : ۲/ ۱۵۶) اسی طرح (معاصرانہ کلام کی ایک مثال) امام مالک رحمہ اللہ کا محمد بن اسحاق میں کلام ہے اس بنا پر کہ انھیں یہ خبر ملی کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق ان کے نسب اور علم میں کلام کرتا ہے۔چنانچہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کہتے تھے کہ امام مالک رحمہ اللہ مولی بنی تیم تھے۔ فکذب مالک ابن اسحاق لأنہ کان اعلم بنسب نفسہ اس لیے امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ابن رحمہ اللہ اسحاق جھوٹ کہتا ہے کیونکہ وہ اپنے نسب کو خوب جانتے تھے۔ اس معاصرانہ منافرت کے علاوہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کا قدری ہونا اور اولاد یہود سے غزوات کا روایت کرنا بھی جرح کا باعث تھا ۔ جیسا کہ امام دحیم رحمہ اللہ ، ابن رحمہ اللہ حبان اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے۔ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ نے بھی کہا ہے: فاما مالک فلاجل اخذہ من بعض اولاد الیھود من قصۃ خیبر مع عدم احتجاجہ بھم او من اجل ما نسبوا الیہ من القدر۔ (تکملۃ فتح الملھم : ج ۲ ص ۳۸۹) امام مالک رحمہ اللہ کا کلام اس وجہ سے تھا کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق یہود کی اولاد سے خیبر کا قصہ بیان کرتے تھے۔ حالانکہ وہ اس سے استدلال نہیں کرتے تھے یا اس لیے کہ ان کو قدریہ کی طرف منسوب کیا گیا تھا۔ اس لیے امام مالک رحمہ اللہ کے کلام کو حدیث کی بنا پر قرار دینا صحیح نہیں۔ (۳)۔۔ راقم نے اس حوالے سے جو کچھ لکھا تاریخ بغداد (ج ۱ ص ۲۲۳) کا باقاعدہ حوالہ دیا کہ بعض علماء نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے بلاوجہ بعض ثقات پر کلام کیا ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بطور مثال نقل کیا ہے کہ امام مالک نے ہشام بن عروہ رحمہ اللہ کو بھی کذاب کہا ہے اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس سے حدیث میں نہیں بلکہ کلام میں جرح و نقد مراد ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے گویہ فرمایا ہے کہ ہشام پر امام مالک کی یہ جرح محفوظ