کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 246
کا کوئی علاج نہیں ۔
مزید عرض ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فاما قول الشعبی الحارث کذاباً فمحمول علی انہ عنی بالکذب الخطأ۔الخ (السیر: ۴/۱۵۳)
رہا امام شعبی رحمہ اللہ کا قول کہ حارث کذاب ہے تو یہ اس پر محمول ہے کہ انھوں نے کذب سے خطا مراد لی ہے۔ شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ نے علامہ الیمانی کی الروض الباسم (ج ۱ ص ۸۲) کے حوالے سے لکھا ہے:
ان لفظۃ کذاب قد یطلقھا کثیر من المتعنتین فی الجرح علی من یھم و یخطئ فی حدیثہ۔الخ ۔ (حاشیۃ الرفع والتکمیل: ص ۱۶۸)
کہ بہت سے متشددین جرح میں راوی کے حدیث میں وہم و خطا پر کذاب کا اطلاق کرتے ہیں۔
علامہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان ارباب الجرح یطلقون من أخطأ مرۃ بالکاذب و علی من اخطأ مرارا بالکذاب۔ (العرف الشذی : ص ۱۱۳)
کہ جو راوی ایک بار (یعنی کم طو رپر) خطا کرتا ہے ائمہ جرح اس پر کذب کا اور جو کئی بار خطا کرتا ہے اس پر کذاب کا اطلاق کرتے ہیں۔
اہل علم کی اس قدر وضاحت کے بعد بھی جناب شیخ الحدیث صاحب کی تشفی نہیں ہوتی تو پھر بتلائیے اس انکار کو ہم ضداور تعصب کا نتیجہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
مزید عرض ہے کہ ’’کذاب‘‘ کا لفظ کبھی راوی کی بدعت کی طرف اشارہ ہوتا ہے جیسا کہ امام یحییٰ قطان رحمہ اللہ نے عبدالمجید بن عبدالعزیز کو کذاب کہا ہے۔ (المعرفۃ والتاریخ للفسوی ص ۵۲ ج ۳)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ
امام مالک رحمہ اللہ کا ابن اسحاق رحمہ اللہ پر کلام معروف ہے۔ اس کلام کا سبب کیا ہے؟ ائمہ ناقدین