کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 245
تبعھم فیہ بقیۃ الناس۔ (تاج العروس: ۱۴۵۱)
’’التوشیح میں ہے کہ اہل حجاز کذبت کو اخطأت کے معنی میں کہتے تھے اور باقی لوگوں نے بھی اس میں ان کی اتباع کی ہے۔ ‘‘ لہٰذا امام تیمی رحمہ اللہ اہل حجاز سے نہ بھی ہوں تب بھی ان کے کذاب کہنے میں خطا کا احتمال موجود ہے اور ڈیروی صاحب کی اس سلسلے کی کوشش بے سود ہے۔
اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ نے اگر دجال کہا ہے تو وہ بھی کذب ہی کے معنی میں ہے کہ علامہ زبیدی ہی نے لکھا ہے کہ دجال کے تمام معانی میں سب سے زیادہ صحیح اور احسن معنی یہ ہیں ان الدجال ھو الکذاب کہ دجال کو کذاب کہتے ہیں (التاج : ج ۷ ص ۳۱۸)۔ اس لیے کذب کے لیے ہی امام مالک نے ایک اور لفظ استعمال کیا ہے ۔ لہٰذا اسے بھی اس معنی میں لیا جائے گا کسی اور میں نہیں۔
اور یہ کہنا کہ’’ کذب بمعنی أخطأ ہے کذاب میں یہ تاویل نہیں چل سکتی ‘‘ بالکل غلط ہے۔ تعجب ہے کہ راقم نے اس معنی کو بیان کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ’’مولانا ظفر احمد تھانوی نے انہاء السکن (ص ۴۳) میں بھی اس قاعدہ کاذکر کیا ہے‘‘ عقل مند کے لیے تو یہ اشارہ ہی کافی تھا مگر افسوس شیخ الحدیث صاحب نے اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ اگر وہ انہاء السکن ہی ملاحظہ فرما لیتے توا ن کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو جاتی ۔ مگر وہ ایسا کیوں کرتے۔ انھوں نے تو اپنے ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کرنا ہے۔ اب ہم اس کی تفصیل عرض کیے دیتے ہیں کہ مولانا ظفر احمد مرحوم نے لکھا ہے:
قال الصیرفی و کذا اذا قالوا فلان کذاب لا بد من بیانہ لان الکذب یحتمل الغلط کقولہ کذب ای غلط ابومحمد۔ (انہاء السکن ص ۴۳)
علامہ الصیرفی رحمہ اللہ نے کہا ہے اس طرح جب وہ یہ کہتے ہیں:’’ فلان کذاب‘‘ فلاں کذاب ہے تواس کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ کذب، خطا کا احتمال رکھتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ کذب ابو محمدیعنی ابومحمد نے غلطی کی ہے۔‘‘ لیجیے جناب! ’’کذاب‘‘ کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ اس میں بھی خطا کے معنی پائے جاتے ہیں مگر ضد اور تعصب