کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 243
تہذیب(ج ۴ ص ۲۰۲) کے حوالہ سے ان کا یہ قول بھی ذکر کیا کہ اتونی بصحیفۃ جابر فلم اروھا فراحوا بھا الی الحسن فرواھا۔الخ میرے پاس بعض لوگ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا صحیفہ لے آئے تو میں نے اس سے روایت نہ کیا ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ بصری اور قتادہ رحمہ اللہ کے پاس لے گئے تو انھوں نے روایت کیا۔ اسے امام یحییٰ قطان رحمہ اللہ نے حضرت سلیمان تیمی رحمہ اللہ سے حکایت کیا ہے، ا ور مسند ابن الجعد (ص ۱۹۹) میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن مدینی فرماتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ قطان رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات سلیمان تیمی رحمہ اللہ سے سنی ہے توانھوں نے سر کے اشارہ سے کہا:’’ہاں‘‘ (ایک نظر: ص ۱۴۹،۱۵۰)
ڈیروی صاحب کی شرافت
قارئین کرام یہاں پہلے تو جناب ڈیروی صاحب کی یہ شرافت دیکھیے کہ تہذیب سے یہ قول نقل کرتے ہیں اوراس کی مزید تصدیق کے لیے مسندابن الجعد کا حوالہ دیتے ہیں۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ تہذیب میں ہے’’ فلم اروھا‘‘ کہ میں نے اسے روایت نہ کیا، جب کہ مسندابن الجعد میں ہے’’ فلم اردھا‘‘ کہ میں نے اسے رد نہیں کیا ہے۔ بلکہ علامہ المزی کی التہذیب (ج ۸ ص ۷۰) میں بھی ’’ فلم اردھا‘‘ ہے اور سیر اعلام النبلاء (ج ۶ ص ۱۹۷) میں بھی ’’ لم اردھا‘‘ ہی ہے۔
التہذیب للمزی اور السیر سے قطع نظر، مسند ابن الجعد میں--جس کا حوالہ ڈیروی صاحب نے دیا ہے-- جب ’’ فلم اردھا‘‘ ہے تو ڈیروی صاحب کو کم از کم اس کے حوالے سے اصل حقیقت سے خبردار کرنا چاہیے تھا۔ چلیے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں فلم اروھاہی ہے جیسا کہ جامع ترمذی حدیث نمبر۱۳۱۲، الکفایہ ص ۵۰۶ ، معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص ۱۱۰ میں ہے۔ مگر ڈیروی صاحب نے یہاں پھر غور نہیں کیا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبدالله کی مرویات کا یہ صحیفہ سلیمان بن قیس الیشکری نے جمع کیا تھا۔ اس کی والدہ نے یہی صحیفہ ثابت رحمہ اللہ بنانی، قتادہ رحمہ اللہ ،ابوبشر، حسن بصری، مطرف کو دیا اور انھوں نے اسی سے روایت کی جیسا کہ الکفایہ میں ہے۔ گویا بصرہ کے ان پانچ حضرات نے اس صحیفہ کے توسط سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایات بیان کیں۔ جعد بن دیناربھی اسی صحیفہ سے روایت کرتے تھے۔ التاریخ الصغیر للبخاری(ص