کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 242
ہیں: ثقۃ فی الحدیث حدیث میں وہ ثقہ ہے ۔ ابن عدی فرماتے ہیں: مابأحادیثہ بأس اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں جب یہ صراحت موجود ہے تو سلیمان تیمی رحمہ اللہ اس کے بارے میں بری رائے کیوں رکھتے تھے؟ اور اس جملہ کے ساتھ یہ بات بھی کہ ابوالمغیرہ القواس ،عبدالله بن شقیق سے برا تھا۔ یہ برائی کیا تھی ؟ چنانچہ اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتا اور ان سے بغض رکھتا تھا (تہذیب : ج ۵ ص ۲۵۳، میزان ، الجرح والتعدیل : ج ۱ ق۲ ص ۸۱ وغیرہ ) اس لیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’ ثقۃ لکنہ فیہ نصب‘‘ ثقہ تھا لیکن اس میں ناصبیت پائی جاتی تھی (میزان : ج ۲ ص ۴۳۹) یہی فیصلہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ہے(تقریب ص ۲۷۱) بلکہ تاریخ اسلام کے گیارہویں طبقہ میں (ص ۱۳۷) میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وثقہ غیر واحد وعمردھرا قال احمد ثقۃ و کان سلیمان التیمی سئ الرائ فیہ لکونہ کان ینال من علی بعض الشیء۔ ایک سے زائد نے اسے ثقہ کہا ہے ۔ اس نے لمبی عمر پائی، احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا ثقہ ہے اور سلیمان تیمی رحمہ اللہ اس کے بارے اس لیے اچھی رائے نہیں رکھتے تھے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ برا سمجھتا تھا۔ لیجیے جناب! یہ بات واضح ہو گئی کہ عبدالله رحمہ اللہ بن شقیق پر سلیما رحمہ اللہ ن تیمی رحمہ اللہ کا اعتراض بھی اس کے مذہبی رجحان (ناصبیت) کی بنا پر تھا ا و ر ابوالمغیرہ القواس پر اعتراض بھی اسی تناظر میں تھا جیسا کہ امام یحییٰ بن سعید نے اشارہ کیا ہے۔ تو یہ کلام بھی حدیث کی بنا پر نہیں ان کے گویا ناصبی ہونے کی وجہ سے تھا۔ اور یہی بات تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سلیمان تیمی رحمہ اللہ کے ابن اسحاق پر کلام کے حوالہ سے کہی ہے کہ یہ حدیث کی بنا پر نہیں قدری ہونے کی بنا پر ہے۔ لہٰذا ابوالمغیرہ کے حوالہ سے ڈیروی صاحب کا سہارا بھی بالکل بے کار ثابت ہوا بلکہ اس سے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تائید بھی ہوتی ہے۔ قدریہ کے بارے میں حضرت سلیمان رحمہ اللہ تیمی کے احساس کا یہ عالم تھا کہ فرماتے ہیں : میں نے ایک بار قدری کو سلام کہہ دیا ، اب ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کے بارے میں مجھے پوچھا نہ جائے (السیر: ج ۶ ص ۲۰۰) امام سلیمان تیمی رحمہ اللہ کو جرح و تعدیل کا امام ثابت کرنے کے لیے ڈیروی صاحب نے