کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 24
علی المستدرک للحاکم ص ۱۱۳ میں کیا ہے تیسری غلط بیانی اور دھوکابازی جناب ڈیروی صاحب اسی اثر کے متعلق مزید لکھتے ہیں: ’’سفیان بن حسین رحمہ اللہ ، زہری سے روایت کرتے ہوئے سند میں اضافہ کرتا ہے دوسرے زہری کے تلامذہ اس کی موافقت نہیں کرتے۔ ‘‘(ایک نظر :ص ۹۱) حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ’’ عن ابیہ‘‘ کا واسطہ سفیان بن حسین کے شاگرد امام شعبہ ذکر کرتے ہیں۔ سفیان بن حسین نہیں۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ پہلے شعبہ ثنا سفیان بن حسین قال سمعت الزھری کی سند سے ابیہ کا واسطہ ذکر کرتے ہیں ،پھر یزید بن زریع عن معمر عن الزھری سے یہ واسطہ ذکر نہیں کرتے۔ پھر فرماتے ہیں: وکذلک رواہ عبدالاعلی السامی عن معمر وھو اصح من روایۃ شعبۃ حیث قال عن ابیہ عن علی ورواہ غیرہ عن سفیان بن حسین نحو روایۃ معمر ۔(السنن الکبری: ص ۱۶۸ ج ۲) کہ اسی طرح معمر رحمہ اللہ سے عبدالاعلیٰ السامی روایت کرتے ہیں۔ (عبدالاعلیٰ کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۳۷۱،۳۷۳) میں اور انہی کے واسطہ سے کتاب القراء ۃ (ص ۶۲) میں بھی ہے) اور وہ زیادہ صحیح ہے۔ شعبہ رحمہ اللہ کی روایت سے جس میں وہ ’’ عن ابیہ‘‘ کہتے ہیں شعبہ رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے سفیان رحمہ اللہ سے معمر رحمہ اللہ کی روایت کی طرح ( عن ابیہ کے بغیر) بیان کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے یزید بن ہارون انبأ سفیان کی سند سے روایت کیا ہے۔ جس میں ’’عن ابیہ‘‘ کا واسطہ نہیں۔ جناب ڈیروی صاحب یزید بن ہارون کی روایت کا انکار کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ان کے قصور علم کا نتیجہ ہے بلکہ شعبہ بھی ایک روایت میں ’’عن ابیہ‘‘کا واسطہ ذکر نہیں کرتے۔(العلل للدارقطنی : ۴؍۱۹)اور امام دارقطنی نے بھی اسی سند کو درست قرار دیا ہے۔ جس میں وہ واسطہ موجود نہیں۔