کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 231
واقعہ ذکر کر دیا ۔ اور وہ بالکل تاریخی ہے۔ اس کا انکار کیوں؟ اور ابن رحمہ اللہ اسحاق کا یہ جرم ناقابل معافی کیوں؟اس کے مقابلے میں مسئلہ چور کے ہاتھ کاٹنے کا ہی نہیں بلکہ دس درہم چوری کرنے کے نتیجہ میں ہاتھ کاٹنے کا ہے۔ اور یہ تعیین ایسی ہے کہ ﴿ السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا ﴾ ’’چور مرد ہو یا عورت ، ان کا ہاتھ کاٹ دو‘‘ کے عمومی حکم کو خاص کر دے۔ مگرا سکے باوجود یہ پھر بھی محض ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہی ہے۔ احکام سے اس کا تعلق نہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ ڈیروی صاحب نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ابن رحمہ اللہ اسحاق کی تحدیث تو پیش کر دی مگر اپنے شیخ مکرم کا قول شاید انھیں یاد نہیں کہ ’’اگر محمد رحمہ اللہ بن اسحاق ثقہ ہوتا اور اس پر صرف تدلیس کا الزام ہوتا تو پھر یہ بات صحیح تھی کہ اس کی تحدیث سے تدلیس کا شبہ جاتا رہتا ہے مگر وہ تو پرلے درجہ کا ضعیف، کمزور اور متروک ہے ۔ لہٰذا وہ تحدیث بھی کرتا رہے اس کی روایت کون سنتا ہے(احسن : ۲؍۸۳) اس لیے انھیں اس تحدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ یاد ش بخیر! ابن اسحاق نے ایمن رضی اللہ عنہ بن ام ایمن کے بارے میں کہا ہے کہ وہ غزوہ حنین میں شہید ہو گئے تھے۔ یہی قول امام ابن سعد رحمہ اللہ ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کاہے۔ علامہ ابن اثیر اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یہی قول ذکر کیا ہے۔ لیکن علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے غالباً عطاء و مجاہد عن ابن ام ایمن کی روایت کی بنا پر کہہ دیا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عرصہ تک زندہ رہے ہیں مگریہاں ابن اسحاق رحمہ اللہ کا قول ’’تاریخ اور مغازی کا امام ہونے کے باوجود قابل قبول نہیں کہ اس سے نصاب سرقہ کی روایت منقطع ہو جاتی ہے۔ لطف یہ کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق اس موقف میں منفرد نہیں بلکہ جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والجمھور کابن اسحاق وغیرہ ذکروہ فیمن قتل من الصحابۃ یوم حنین۔ (البدایۃ:۵۳۱۳،۳۱۴) کہ جمہور جیسے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق وغیرہ ہیں، نے ذکر کیا ہے کہ وہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جو غزوہ حنین میں شہید ہو گئے تھے۔‘‘ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے بھی الکامل (ج۲ ص ۲۶۶) میں یہی لکھا ہے کہ وہ حنین میں شہید ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسد الغابہ (ج ۱ ص ۱۶۱) میں اس