کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 227
ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کی پہلے حدیث لکھی ، پھر اسے ترک کر دیا۔ ابوزرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ذھب حدیثہ (لسان: ۲؍۳۰۷ و میزان) اس کا استاد محمد بن عمر واقدی ہے۔ جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’متروک ‘‘قرار دیتے ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ ، ابن المبارک رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے اور بعض نے کذاب بھی کہا ہے جیسا کہ تہذیب وغیرہ میں ہے۔ اب بتلائیے جس کا سلسلہ سند کذاب اور متروک راویوں پر مشتمل ہو اس کی بنیاد پر ابوالحویرث کو ابن اکیمہ رحمہ اللہ کا تلمیذ ثابت کرنا درست ہے ؟ اگر نافع رحمہ اللہ کی روایت ایک کذاب راوی کی بنیاد پر ناقابل التفات ہے اور اسے پیش کرنا جرم ہے توا بوالحویرث رحمہ اللہ کی یہ روایت بھی کذاب اور متروک راویوں کی بنا پرناقابل التفات اور اسے پیش کرنا جرم کیوں نہیں؟ نافع رحمہ اللہ کی یہ دوسری روایت اگر کذاب راوی کی بنا پر جھوٹ ہے تو کذاب اور متروک راویوں کی روایت کی بنا پر ابوالحویرث رحمہ اللہ کی یہ روایت جھوٹ پر مبنی کیوں نہیں؟ اسی طرح دیکھیے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے المیزان (ج ۲ ص ۳۵۷) میں عاصم بن مخلد کے ترجمہ میں کہا ہے کہ یہ مجہول ہے ۔ ابوالاشعث سے روایت کرتا ہے۔ اس سے روایت لینے میں قزعہ بن سوید منفرد ہے۔ پھر اس کی ایک حدیث بیان کی جو مسند امام احمد (ج ۴ ص ۱۲۵) میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ عاصم منفرد ہے بڑی عجیب بات ہے جب کہ خود انھوں نے عبدالقدوس بن حبیب کے ترجمہ میں یہی حدیث ابوالاشعث سے بیان کی ہے(لسان : ج ۳ ص ۲۲۱) غور فرمایا آپ نے کہ عاصم کی متابعت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عبدالقدوس کو پیش کرتے ہیں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ پر عاصم کے دعوی تفرد پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علم میں ہے کہ عبدالقدوس کذاب، متروک ہے ۔فلاس نے تو فرمایا ہے کہ اجمعوا علی ترک حدیثہ اس کی حدیث کے ترک پر محدثین کا اجماع ہے(لسان: ج ۴ ص ۴۵،۴۶) نیز دیکھیے تعجیل المنفعہ (ص ۲۰۴) ، القول المسدد (ص ۷۵)وغیرہ ۔ لہٰذا اگر نافع رحمہ اللہ کی دوسری روایت ذکر کرنا جھوٹ ہے تو بتلایا جائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی عبدالقدوس کی متابعت ذکر کرنے میں جھوٹ ہی بولا ہے؟ دراصل جھوٹے کو ہر چیز ہی جھوٹی نظر آتی ہے۔