کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 226
کے متعلق راقم نے عرض کیا تھا کہ مستدرک حاکم (ج ۲ ص ۵۵) میں ایک اور روایت بھی نافع بن محمود سے مروی ہے۔ جس کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ’’صحیح الاسناد‘‘ ہے مگر علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص المستدرک میں وضاحت کی ہے کہ یہ سند صحیح نہیں۔
ڈیروی صاحب نے اس حوالہ کے متعلق جس قدر طول بیانی سے کام لیا اور جس انداز سے غیظ وغضب کا اظہار کیا ہے ۔ وہ ’’ایک نظر ‘‘ص ۱۰۵ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بلاشبہ تلخیص المستدرک میں اسے موضوع قرار دیا کہ عبدالله بن عمرو بن حسان کذاب ہے ۔ مستدرک کے علاوہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے السنن (ج ۳ ص ۶۸) میں اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن (ج ۹ ص ۱۲۸)میں یہ روایت ذکر کی اور اسے ضعیف قرار دیا ۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ جب راوی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے فلاں اور فلاں سے روایت لی اور اس سے فلاں اور فلاں نے روایت لی ہے یا یہ روایت فلاں اور فلاں صحابی سے مروی ہے تو کیا اس میں صحت سند شرط ہے ؟ یا فی الجملہ اس کے راوی مروی عنہ بیان کرنا مقصود ہو تا ہے۔ کتب تخریج اور کتب رجال سے تو یہی معلو م ہوتا ہے کہ وہاں فی الجملہ روایت کا ذکر یا راوی کا ذکر مطلوب ہوتا ہے ۔ اگر وہ روایت قابل اعتبار سند سے ہے تو فبہا ورنہ وہ ضعیف قرار دے دی جائے۔ یوں نہیں کہ ا س کو حکایت کرنے والا یا نقل کرنے والا کسی جرم کا مرتکب ہے۔ ہم یہاں کوئی اور مثال دیتے تو شاید ڈیروی صاحب کی تشفی نہ ہوتی۔ انہی کے شیخ مکرم کے حوالے سے عرض ہے کہ ابن اکیمہ رحمہ اللہ سے امام زہری رحمہ اللہ کے علاوہ کسی اور نے روایت لی ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے موصوف لکھتے ہیں:’’ایک چوتھے راوی بھی ہیں ۔ چنانچہ مستدرک (ج ۳ ص ۴۸۴) میں ہے : عن ابی الحویرث عن عمارۃ بن اکیمۃ اللیثی ۔۔الخ( احسن : ۱؍۲۲۳) اسی روایت کی طرف حافظ مغلطائی نے إکمال (ج ۱۰ ص ۷) میں بھی اشارہ کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت پر کوئی حکم نہیں لگایا اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ بھی اس پر خاموش ہیں ۔ حالانکہ یہ روایت الحسین بن الفرج ثنا محمد بن عمر حدثنی عابد بن بحیرکی سند سے منقول ہے۔ اور باقی سند سے قطع نظر یہ دیکھیے کہ الحسین بن الفرج کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کذاب یسرق الحدیث امام