کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 223
ذہبی رحمہ اللہ ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، ابن سید رحمہ اللہ الناس بلکہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ ، امام علی رحمہ اللہ بن مدینی،امام دحیم رحمہ اللہ دے چکے ہیں۔ اس طرح بعض نے بدعت کی طرف انتساب کی وجہ سے ابن اسحاق کو کذاب کہا اور بعض نے خطا و غلطی کی بنا پر۔ اس کے برعکس جمہور ائمہ جرح و تعدیل او رمتقدمین و متاخرین نے اس کی توثیق بیان کی اور اس کی حدیث کو حسن صحیح قرار دیا، جیسا کہ توضیح الکلام میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ بلکہ ڈیڑھ درجن سے زائد حنفی اکابرین کے اقوال بھی ذکر کیے گئے ہیں جو ابن رحمہ اللہ اسحاق کو ثقہ و صدوق تسلیم کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور قاضی ابویوسف کے وہ استاد ہیں(مسند ابی حنیفہ لابی نعیم ، الخراج) لیکن جب انسان ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو انصاف کے سب تقاضے تار تار کر دیتا ہے۔ نافع بن محمود رحمۃ اللہ علیہ ڈیروی صاحب نے علامہ ماردینی رحمہ اللہ ، علامہ الجصاص رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ نافع مجہول ہے(ایک نظر: ص ۲۹۸،۲۹۹) حالانکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ نافع مجہول یا مستور نہیں۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے نافع کی اسی روایت کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں اور سند حسن ہے(السنن ج ۱ ص ۳۲۰) امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کی سند صحیح اور راوی ثقہ ہیں۔ ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن حزم رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی الکاشف میں ثقہ کہا۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی قرار دیا او رمولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے بھی امام دارقطنی رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ کی تائید کی ہے۔ (غیث الغمام : ص ۲۶۰) علاوہ ازیں نافع بن محمود رحمہ اللہ کی یہ روایت امام نسائی رحمہ اللہ نے السنن میں ذکر کی ہے اور اس سے پہلے ہم ثابت کر آئے ہیں ۔ حنفی دیوبندی اکابرین کے نزدیک نسائی کی روایت صحیح ہوتی ہے ۔ کیا ہم یہاں بھی ان سے اس کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ نسائی کی اسی روایت کو صحیح یا کم از کم حسن قرار دیں۔ اسی طرح امام ابوداؤد نے بھی یہ روایت سنن میں نقل کی اور اس پر خاموشی اختیار کی ۔ حنفی اصول میں ایسی روایت بھی قابل احتجاج ہے(انہاء السکن : ص ۲۳) بلکہ یہ بھی کہ ایک راویت کا راوی مجہول ہے مگر لم یضعفہ ابوداود فھو حسن عندہ امام