کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 222
تدریب الراوی (ص ۹۱) میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی دیگر عبارتیں توضیح میں ملاحظہ فرمائیں۔جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق حسن الحدیث ہے اور ’’وہ بالکل ایسا کمزور بھی نہیں ‘‘ جیسا کہ مولانا صفدر صاحب لکھتے ہیں :’’ وہ تو پرلے درجہ کا ضعیف اور کمزور اور متروک ہے، لہٰذا وہ تحدیث بھی کرتا رہے ، اس کی روایت کو کون سنتا ہے ؟ (احسن : ج ۲ ص ۸۳) اور ڈیروی صاحب تو اسے ’’مشہور دلا‘‘ اور کذاب دجال قرار دیتے ہیں۔ ایک نظر ص ۱۱۷۔ اس لیے ان کا علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی ان عبارتوں کو اپنی تائید میں پیش کرنا فضول ہے کہ اس سے ان کے موقف کی قطعاً تائید نہیں ہوتی۔ ڈیروی صاحب کی تضاد فکری یہ بھی کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ڈیروی صاحب نے السیر (ج ۶ ص ۱۹۱) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’یہ اجتہاد شعبہ کا مردود ہے جس کی طرف التفات نہ کیا جائے بلکہ خالد الحذاء اور ہشام بن خالد سے صحیحین میں حجت پکڑی گئی ہے اور یہ دونوں حجاج رحمہ اللہ پر ارطاۃ اور ابن رحمہ اللہ اسحاق سے بہت ثقہ ہیں بلکہ حجاج رحمہ اللہ اور ابن رحمہ اللہ اسحاق تو ماشاء الله ظاہر ہیں لیکن متروک نہیں ہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۹۱) حالانکہ اس سے قبل (ص ۲۶۵) پر امام شعبہ رحمہ اللہ کے اسی قول کی بنیاد پر خالد الحذاء کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جیسا کہ ہم پہلے بھی وضاحت کر آئے ہیں ۔ نیز علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں ابن اسحاق ’’متروک‘‘ یہاں بھی نہیں۔ مگر استاد شاگرد کا موقف اس کے برعکس۔ اور انھوں نے جو یہ فرمایا کہ اس کا ’’حال ظاہر‘‘ ہے تو اس کی وضاحت اسی السیر میں انھوں نے بیان کر دی کہ اس کی حدیث حسن درجہ کی ہے، جیسا کہ ابھی ہم نقل کر آئے ہیں۔ اس لیے کسی اعتبار سے بھی یہ عبارت ڈیروی صاحب کے موقف کی تائید نہیں کرتی ۔ البتہ فضول بھرتی کے ذریعے قارئین کو دھوکا دینے کی کوشش ضرورہے۔ محمد رحمہ اللہ بن اسحاق پر کلام سے انکار نہیں لیکن انھیں کذاب اور متروک قرار دینا قطعاً درست نہیں۔ جن حضرات نے کذاب کہا ہے مثلاً امام مالک رحمہ اللہ ، وہیب رحمہ اللہ بن خالد، ہشام رحمہ اللہ ، عبدالرحمن رحمہ اللہ بن مہدی وغیرہ تو اس کا باعث دراصل ہشام رحمہ اللہ کا قول ہے۔ جس کا جواب حافظ