کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 221
کہ ابن اسحاق حلال و حرام میں حجت نہیں اور بالکل کمزور بھی نہیں بلکہ اس کی روایت شواہد میں پیش ہو سکتی ہے۔ اسی طرح میزان (ج ۴ ص ۲۹۴) کے حوالے سے ہے کہ جمہور کے ہاں ابن رحمہ اللہ اسحاق اور حجاج بن ارطاۃ کے ساتھ حجت نہ پکڑی جائے۔ (ایک نظر: ص ۲۹۱)
بلاشبہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ کلام دونوں مقامات پر موجود ہے۔ مگراس کے علاوہ باقی مقامات پر وہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث کو حسن قرار دیتے ہیں، بلکہ میزان ہی میں محمد بن اسحاق کے ترجمہ کے اختتام پر فرماتے ہیں:
فالذی یظھر لی ان ابن اسحاق حسن الحدیث، صالح الحال صدوق وما انفرد فیہ ففیہ نکارۃ فان فی حفظہ شیء وقد احتج بہ ائمۃ۔ (میزان : ج ۳ ص ۴۷۵)
جو بات میرے لیے ظاہر ہوئی وہ یہ کہ ابن اسحاق حسن الحدیث، صالح الحال صدوق ہے اور جس میں منفرد ہو اس میں نکارت ہوتی ہے کیونکہ اس کے حافظہ میں کچھ کمزوری ہے اور ائمہ نے اس سے احتجاج کیا ہے۔‘‘ اور یہ جو انھوں نے تفرد کی صورت میں اس کی روایت میں نکارت کا فرمایا ہے تواس سے مراد اس کی شاذ روایت ہے جس میں ثقات کی مخالفت ہو، محض تفرد مراد نہیں۔ چنانچہ السیر میں فرماتے ہیں:
اما فی الاحکام فینحط حدیثہ فیھا عن رتبۃ الصحۃ الی رتبۃ الحسن الا فیما شذ فیہ فانہ یعد منکرا ھذا الذی عندی فی حالہ ۔ (السیر: ج ۷ ص ۴۱)
احکام میں اس کی حدیث صحت کے درجہ سے کم ہو کر حسن درجہ میں ہو جاتی ہے الا یہ کہ وہ اس میں شذوذ کریں ۔ ایسی صورت میں وہ روایت منکر ہوگی۔ یہ ہے میرے نزدیک اس کا حال ۔ ان دونوں عبارتوں سے عیاں ہوتا ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ ابن اسحاق کی روایت کو حسن درجہ سے کم نہیں سمجھتے، بلکہ الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث (ص۳۲) میں ابن اسحاق کی روایت کو حسن کے اعلیٰ مراتب میں شمار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بہت سے حفاظ نے اسے صحیح کہا ہے اور مراتب صحیح کے ادنیٰ درجہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی