کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 220
التحریش بین البہائم آپ نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا۔ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے یا اس سے کراہت مراد ہے۔ چنانچہ علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ ھل النھی للتحریم اوالکراھۃ قولان (فیض القدیر : ج ۶ ص ۳۰۳) اوراس اختلاف کی بنا پر ممکن ہے کہ ابن اسحاق کی بھی یہی رائے ہو کہ یہ ممانعت تحریمی نہیں ،تنزیہی ہے۔ اس لیے فقہی اختلافی مسئلہ میں اس نوعیت کا اعتراض درست نہیں۔
اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ وہ سیاہ خضاب لگاتا تھا (ایک نظر: ص ۲۹۶) حالانکہ اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ سیاہ خضاب حرام ہے یا اس کی رخصت ہے اور اس کے جواز کے قائلین میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص،عقبہ رضی اللہ عنہ بن عامر، حسن رضی اللہ عنہ ، حسین رضی اللہ عنہ ،جریر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام jبھی شامل ہیں اور امام ابن ابی عاصم نے اس کے جواز پر مستقل کتاب بھی لکھی ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج ۱۰ ص ۳۵۴) میں ذکر کیا ہے اور ممکن ہے ابن رحمہ اللہ اسحاق بھی ا س کے جواز کے قائل ہوں۔ لہٰذا ایسے فقہی اختلافی مسئلہ میں تنقید محل نظر ہے اگرچہ اس مسئلہ میں جمہور کا موقف درست ہے۔
الغرض اس نوعیت کے مسائل کی بنیاد پر کلام کرنا اور اسے بھی جرح شمار کرنا کسی اعتبار سے درست نہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ان کا موقف خطأ پر مبنی تھا مگر اس کی بنیاد پر انھیں مردود الروایہ قرار دینا بچگانہ حرکت ہے۔ کوئی ذی علم اس کی تائید و تحسین نہیں کر سکتا۔
ڈیروی صاحب کی یہاں یہ دلیری بھی دیکھیے کہ وہ امام الکلام (ص ۲۶۷) کے حوالہ سے امام مکی رحمہ اللہ بن ابراہیم کا یہ قول ذکر کرتے ہیں کہ صفات باری تعالیٰ میں ابن رحمہ اللہ اسحاق نے احادیث ذکر کیں ۔ میں ان کی طرف لوٹ کر نہ گیا اور اس کی حدیث کو ترک کر دیا۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۹۶) مگر امام الکلام (ص ۲۶۸)میں اس کا جو جواب نقل کیا گیا ہے اس کی طرف کوئی التفات نہیں کرتے کہ سلف کی ایک جماعت نے ایسی روایات کو بیان کرنے کی رخصت دی ہے۔ لہٰذا امام مکی رحمہ اللہ بن ابراہیم کا اس سے روایت نہ لینا اس کے متروک ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ
جناب ڈیروی صاحب نے تذکرۃالحفاظ (ج ۱ص ۱۷۲) کے حوالے سے نقل کیا ہے