کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 218
ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ مولانا صفدر صاحب نے احسن الکلام (ج ۲ ص ۷۲) میں علامہ نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی جرح نقل کی کہ ’’جو راوی صحیح کی شرطوں کے مطابق نہیں ، ان میں ایک ابن رحمہ اللہ اسحاق ہے۔‘‘ جس کے جواب میں راقم نے عرض کیا تھا کہ ’’بلاشبہ ابن اسحاق الصحیح کی شرط کے مطابق نہیں ۔۔الخ اور اسی عبارت کو ڈیروی صاحب نے (ایک نظر : ص ۲۹۴،۲۴۸) میں نقل کرکے یہ تاثر دینا چاہا کہ راقم بھی علامہ نووی رحمہ اللہ کے نزدیک ابن رحمہ اللہ اسحاق کو مجروح قرار دیتا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حالانکہ اس سے متصل بعد راقم نے اس کی وضاحت کر دی جسے ڈیروی صاحب نے اپنے علم و فضل کے باوصف نظرا نداز کر دیا۔ کہ یہاں الصحیح سے مراد صحیح حدیث نہیں بلکہ صحیح مسلم ہے۔ چنانچہ علامہ نووی رحمہ اللہ کا مقدمہ مسلم (ص ۱۶) دیکھ لیجیے۔ انھوں نے تو امام مسلم رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے کہ بعض نے جو صحیح مسلم کے طبقہ ثانیہ کے ان راویوں سے روایت لی ہے جو الصحیح کی شرط پر نہیں اور ان میں کلام ہے تواس کے انھوں نے چار جواب دیئے ہیں:(۱)۔ وہ جرح دوسرے امام سے ہے خود امام مسلم کے نزدیک وہ ثقہ ہے۔ (۲) ان سے روایات شواہد و متابعات میں ہیں اور وہ راوی الصحیح کی شرط پر نہیں، جیسے مطر رحمہ اللہ الوراق ،بقیہ بن ولید رحمہ اللہ ، ابن رحمہ اللہ اسحاق، عبدالله العمری رحمہ اللہ ، نعمان رحمہ اللہ بن راشد۔(۳) وہ ضعف بعد میں ہوا ، امام مسلم رحمہ اللہ نے ان سے پہلے روایت لی ہے۔ (۴) عالی سند کی بنا پر روایت لی ہے۔ غور فرمائیے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ تو ابن اسحاق رحمہ اللہ پر جرح کا یہاں بھی دفاع کر رہے ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے استشہاداً اور متابعۃً اس سے روایت لی ہے۔ گو وہ ’’ الصحیح‘‘ کی شرط کے مطابق نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خود علامہ نووی رحمہ اللہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث صحیح الاسناد قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: کہ جب وہ سماع کی صراحت کرے تو جمہور اس سے احتجاج کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں: ھذا الاسناد صحیح والجمہور علی الاحتجاج بمحمد ابن اسحاق اذا قال حدثنا۔ (شرح المھذب : ج ۸ ص ۲۳۴) بلکہ فاتحہ خلف الامام کی روایت کے بارے میں وہ امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام دارقطنی رحمہ اللہ اور علامہ