کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 217
ہے۔پھر ہم نے یہ بھی نقل کیا کہ علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خود ابن جوزی رحمہ اللہ بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ آخر یہ استدلال ان کے ہاں مقبول کیوں نہیں ؟ اور یہی بات علامہ ابن عبدالہادی نے تنقیح (ج۱ ص ۳۸۰) میں کہی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن رحمہ اللہ جوزی نے اس مسئلہ میں کہ عورت فوت ہو جائے تو اس کا خاوند اس کو غسل دے سکتا ہے ۔اول مرحلہ میں ابن رحمہ اللہ اسحق کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ اگر تم فوت ہو جاؤ تو میں تمھیں غسل دوں گا ،تجھے کفن پہناؤں گا، تم پر جنازہ پڑھوں گا اور تمھیں دفن کروں گا۔ اور اسی روایت کے بارے میں انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس میں غسل دینے کا ذکر صرف ابن رحمہ اللہ اسحاق کرتے ہیں۔ پھراس کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
ولم یقل غسلتک إلا محمد بن اسحاق و قد کذبہ مالک قلنا انما کذبہ مالک لقول ہشام بن عروۃ انہ حدث عن ام أبی (امرأتی)۔ وما رآھا رجل قط و قد تأول ھذاأحمد بن حنبل فقال یمکن ان یکون خرجت الی المسجد فسمع منھا و قال یحی بن معین محمد بن اسحاق ثقۃ وقال شعبۃ صدوق۔ (التحقیق: ج ۲ ص ۵)
کہ غسلتک کا لفظ صرف ابن اسحاق ذکر کرتے ہیں اور اسے امام مالک رحمہ اللہ نے جھوٹا کہا ہے۔ ہم (ابن رحمہ اللہ جوزی )کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اسے ہشام بن عروہ کے اس قول کی وجہ سے جھوٹا کہا ہے کہ ابن اسحاق میری بیوی سے روایت کرتا ہے حالانکہ کسی آدمی نے اسے بالکل نہیں دیکھا اور امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ ہشام کی بیوی مسجد کی طرف نکلی ہو اس وقت اس سے سنا ہو اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے ثقہ اور امام شعبہ رحمہ اللہ نے اسے صدوق کہا ہے۔‘‘ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا یہ کلام علامہ ابن عبدالہادی نے تنقیح (ج۲ ص ۱۲۴) میں بھی نقل کیا ہے ۔ انصاف شرط ہے کہ جرح کے دفاع کے بعد اور توثیق نقل کرنے کے بعد ابن جوزی رحمہ اللہ کا صرف جرح نقل کرنا چہ معنی دارد؟ لہٰذا راقم کے ادھورے حوالہ سے ابن جوزی رحمہ اللہ کی جرح نقل کرنا بھی ڈیروی صاحب کا دھوکا اورسراسر بددیانتی پر مبنی ہے۔