کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 216
ابن اسحاق عن عاصم بن عمر عن جابر۔الخ (شرح نخبۃ الفکر : ص۳۴)
اور یہ مقدم ہے اس کی روایت پر جس کی روایت تفرد کی صورت میں حسن شمار کی گئی ہے جیسے محمد بن اسحاق عن عاصم عن جابر ہے۔ اور یہ بات توضیح الکلام میں ا چکی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن رحمہ اللہ اسحاق پر جرح کا دفاع کیا ہے اور فاتحہ خلف الامام کی روایت کو انھوں نے حسن قرار دیا ہے اور الدرایہ (ج ۱ ص ۱۶۳) ہی میں اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ ہم نے تو الله کی توفیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اس کی منفرد روایت کو احکام میں بھی حسن قرار دیتے ہیں، بشرطیکہ وہ تدلیس نہ کرے اور اس کی روایت ثقات کی مخالف نہ ہو۔
اب ڈیروی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کر یں کہ ابن اسحاق ثقا ت کی مخالفت نہ کرے،تحدیث کی صورت میں بھی وہ ابن اسحاق کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ دیدہ باید۔!
ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا صفدر صاحب نے نصب الرایہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کو مجروح قرار دیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے اسے جھوٹا کہا ہے، اس کے جواب میں راقم نے عرض کیا تھا:’’بلاشبہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے کتاب الضعفاء الموضوعات اور العلل المتناہیہ میں ابن اسحاق پر جرح نقل کی ہے۔‘‘(توضیح : ج ۱ ص ۲۵۸)
بددیانتی کی انتہا
مگر جناب ڈیروی صاحب کی کارستانی ملاحظہ ہو کہ راقم کی اسی عبارت کو نقل کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے نزدیک ابن رحمہ اللہ اسحاق کا مجروح ہونا راقم کے ہاں بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے (ایک نظر ص ۲۹۴) ۔حالانکہ اس کے بعد توضیح میں ابن جوزی رحمہ اللہ کی جرح کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، علامہ سیوطی رحمہ اللہ ، علامہ عینی رحمہ اللہ ، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ ، علامہ ابن ہمام کے حوالے سے دیا، جسے ڈیروی صاحب شیر مادر سمجھ کر ہضم کر گئے۔ بددیانتی کی بھی کوئی حد ہوتی