کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 215
’’ وقد اخرجہ ابن خزیمۃ فی کتاب الزکاۃ من صحیحہ من روایۃ ابن اسحاق وحالہ معروف و حدیثہ فی درجۃ الحسن‘‘(الفتح: ج ۱۳ ص ۳۵۳) اس کی ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب الزکوۃ میں ابن رحمہ اللہ اسحاق کی روایت سے تخریج کی ہے۔ اس کا حال معروف ہے او ر اس کی حدیث درجہ حسن میں ہے۔ علاوہ ازیں ابن اسحاق کی سند سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن متصل کہا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا اس کی سند حسن صحیح ہے لیکن ابن الترکمانی رحمہ اللہ نے بیہقی رحمہ اللہ پر تعاقب کیا ہے کہ خود بیہقی رحمہ اللہ نے باب تحریم قتل مالہ روح میں ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث ذکر کرکے کہا ہے کہ اس میں ابن رحمہ اللہ اسحاق ہے اور جس میں ابن اسحاق منفرد ہو حفاظ حدیث اس سے بچتے ہیں۔ میں (ابن حجر) کہتا ہوں یہ اعتراض درست ہے کیونکہ اس زیادت کا ذکر کرنے میں ابن رحمہ اللہ اسحاق منفر د ہے۔ لیکن جس میں وہ منفرد ہو وہ اگرچہ صحت کو نہ پہنچے وہ درجہ حسن میں ہوتی ہے جب وہ صراحت سماع کرے اور یہاں اسی طرح ہے۔ ابن اسحاق کی حدیث کو انھوں نے صحیح کہا ہے جو صحیح وحسن میں فرق نہیں کرتے اور ہر قابل حجت کو صحیح کہتے ہیں اور یہ طریقہ ابن حبان وغیرہ کا ہے۔ (فتح الباری : ج ۱۱ ص ۱۶۳، کتا ب الدعوات باب الصلوٰۃ علی النبی صلي الله عليه وسلم ) [1] جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، ابن اسحاق رحمہ اللہ جہاں منفرد ہوں اور صراحت سماع کریں تو احکام میں بھی اس کی حدیث کو حسن قرار دیتے ہیں ۔ اسی طرح موصوف راوی کی حیثیت سے احادیث کے مراتب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وھی مقدمۃ علی روایۃ من یعد ما ینفرد حسناً کمحمد
[1] راقم نے توضیح (ج ۱ ص ۲۴۳) میں فتح الباری کا یہی حوالہ بحوالہ ابکار المنن (ص ۱۳۶) ذکر کیا ہے۔ اور عرض کیا ہے کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن اسحاق کا تفرد حسن درجہ سے کم نہیں۔ ڈیروی صاحب نے اس پر اپنے روایتی انداز میں گویا عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے: فتح الباری کا صفحہ اور جلد نقل کرنا ضروری تھا۔‘‘ (ایک نظر: ص ۱۱۱) لیجیے جناب صفحہ اور جلد کا حوالہ نو ٹ کر لیجیے (ج ۱۱ ص ۱۶۳) اور ضد چھوڑئیے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ موقف نہیں۔