کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 214
وھذا یؤید ما قدمنا ان المختلف فیہ من الرواۃ حجۃ و ان لم یکن کحجۃ راوی الصحیح۔ (انہاء السکن : ص ۸۶)
اس سے اس کی تائید ہوتی ہے جو ہم پہلے کہہ آئے ہیں کہ مختلف فیہ راوی حجت (یعنی قابل استدلال) ہے اگرچہ وہ الصحیح کے راوی کی طرح حجت نہیں۔‘‘ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلوغ المرام میں اگر انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ ابن اسحاق میں کلام ہے، تواس سے یہ لازم نہیں اتا کہ وہ مردود اور ضعیف ہے۔ بلکہ خود انھوں نے اس کی روایت کا دفاع کیا ہے اور اس کی ایک روایت کو اما م احمد رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کے حوالے سے صحیح کہا ہے۔ اس لیے ڈیروی صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس مجمل قول سے دھوکا دیا ہے کہ وہ بھی اسے ضعیف کہتے ہیں۔
لطیفہ
ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وابن اسحٰق لا یحتج بما ینفرد بہ من الاحکام فضلا عما اذا خالفہ من ھو اثبت منہ، واللّٰه اعلم (الدرایہ: ج ۱ ص ۱۹) (ایک نظر: ص ۲۹۱) ڈیروی صاحب سے سہو ہوا ۔ الدرایہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ہے، علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی ہر گز ہرگز نہیں اور الدرایہ (ج ۲ ص ۱۹) میں یہ عبارت بھی موجود ہے۔ مگر ان کی یہ عبارت فتح الباری کی محولہ بالا عبارت کے یکسر مخالف ہے جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق سے احکام میں بھی احتجاج کیا گیا ہے۔ البتہ جب ثقات کی مخالفت کرے تو حجت نہیں بلکہ یہی بات انھوں نے بتکرار فتح الباری میں فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ وابن اسحاق حسن الحدیث الا انہ لا یحتج بہ اذا خولف۔‘‘(الفتح : ج ۴ ص ۳۲)
’’ابن رحمہ اللہ اسحاق حسن الحدیث ہے مگر جب اس کی مخالفت کی گئی ہو تو حجت نہیں۔‘‘ اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔