کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 213
وضاحت نہیں فرمائی (تقریب: ص ۴۳۵) میں تو وہ اسے ’’ صدوق یدلس‘‘ قرار دیتے ہیں اور ایسے راوی کی روایت بشرطیکہ تدلیس نہ ہو حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی اور خاص اس روایت کے متعلق پہلے وہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں۔
’’ أخرجہ احمد وابویعلی وصححہ من طریق ابن اسحاق ‘‘(فتح الباری : ج ۹ ص ۳۶۲)
کہ اس کی امام احمد اور ابویعلی نے تخریج کی ہے اور اسے ابن اسحاق کے طریق سے صحیح کہا ہے۔ اس کے بعد اس پر اعتراض کہ اس میں ابن اسحاق اوراس کا استاد مختلف فیہ ہیں کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
واجیب بانھم احتجوا فی عدۃ من الاحکام بمثل ھذا الاسناد کحدیث ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم رد علی ابی العاص بن ربیع ابنتہ زینب بالنکاح الاول و لیس کل مختلف فیہ مردودا۔ (فتح الباری : ج ۹ ص ۳۶۲)
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ محدثین اس جیسی سند سے متعدد احکام میں استدلال کرتے ہیں جیسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سیدہ زینب کو پہلے نکاح کی بنیاد پر ہی ابوالعاص پر لوٹا دیا تھا اور ہر مختلف فیہ مردود نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہ کے جس نکاح کا اشارہ کیا ہے وہ روایت بھی ابن اسحاق ہی سے مروی ہے۔ترمذی( ج ۲ ص ۱۹۶) ابو داؤد ، ابن ماجہ، مسنداحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور بلوغ المرام ہی میں اس روایت کے بارے میں نقل کیا ہے صححہ احمد والحاکم کہ اسے امام احمد رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’ لیس باسنادہ باس‘‘ کہا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ ، اورعلامہ خطابی رحمہ اللہ نے اس کو اصح قرار دیا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حدیث جید قوی فرمایا ہے ۔
(تحفۃ الاحوذی: ج ۲ ص ۱۹۶)
علاوہ ازیں یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ فتح الباری میں مذکورۃ الصدر عبارت کو مولانا ظفر احمد عثمانی نے انہاء السکن میں نقل کیا اور پھر یہ بھی فرمایا: