کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 212
القراء ۃ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ ڈیروی صاحب کو اعتماد اس لیے نہیں کہ اس سے ان کے مسلک و موقف کا تانا بانا تارتارہو جاتا ہے۔ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث صحیح ہے توا نھوں نے فرمایا: نعم حدیثہ عندی صحیح ہاں اس کی حدیث میرے نزدیک صحیح ہے۔تاریخ بغداد (ج ۱ ص ۲۲۹) ، میزان (ج ۷ص ۴۶۹،۴۷۵) وغیرہ۔ لہٰذا ابن اسحاق کی روایت کے بارے میں صحت کا حکم محمود رحمہ اللہ بن اسحاق کی سند ہی سے مروی نہیں۔ ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اورروایت جناب ڈیروی صاحب ابن اسحاق کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ تشہد میں بسم الله کا اضافہ کرنا بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق کی غلطی ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن (ج ۲ ص ۱۴۲،۱۴۳) میں کہا ہے (ایک نظر: ص ۲۸۹،۲۹۰) محمد رحمہ اللہ بن اسحاق نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں بسم الله کا ذکر کیا ہے۔ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابن اسحاق رحمہ اللہ کے تفرد اور ثقات کی مخالفت کی بنا پر اس پر اعتراض کیا۔ ثقہ یا صدوق راوی اپنے سے اوثق کی یا جماعت کی مخالفت کرے تو وہ روایت شاذ ہوتی ہے۔ اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ نے جو کیا اصول کے مطابق کیا۔ مگر فاتحہ کی روایت میں نہ وہ منفرد ہے اور نہ ہی اس نے اوثق راوی کی مخالفت کی ہے۔ ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’ابن رحمہ اللہ اسحاق کی ایک اور روایت حدثنی کی ساتھ مروی ہے۔ لیکن ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی سندھما ابن اسحاق و فیہ مقال بلوغ المرام (ایک نظر: ص ۲۹۰) کاش! ڈیروی صاحب یہ بھی بتلادیتے کہ وہ کونسی روایت ہے۔ غالباً اس سے مراد طلاق ثلاثہ کے متعلق حضرت عبد رضی اللہ عنہ الله بن عباس کی روایت ہے جو مسند احمد میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں فرمایا ہے کہ اس کی سند میں ابن اسحاق ہے اور اس میں ’’مقال‘‘ (کلام )ہے۔ یہ کلام کیا ہے؟ کیا یہ باعث ضعف ہے؟ حافظ ابن حجر نے یہاں کوئی