کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 211
علاوہ ازیں اس روایت میں تو امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عن عبداللّٰه بن ابی بکر عن عروۃ و لم اسمعہ منہ انہ کان یحدث عن بسرۃ کہ میں نے یہ روایت عروہ سے نہیں سنی، بلکہ یہ عروہ سے بواسطہ عبدالله بن ابی بکر رحمہ اللہ ہے جس میں انھوں نے براہ راست عروہ رحمہ اللہ سے ۔اس روایت میں سماع کا انکار کیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے عبد رحمہ اللہ الله سے یہ روایت سنی ہے۔ اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ قد اخبر الزھری بانہ لم یسمعہ من عروۃ وانما سمعہ من عبداللّٰه بن ابی بکر و ھو من الثقات عن عروۃ ثم عروۃ رواہ عن بسرۃ و عن زید۔ (المعرفۃ : ج ۱ ص ۲۲۳) کہ زہری نے خبر دی ہے کہ اس نے یہ حدیث عروہ رحمہ اللہ سے نہیں سنی بلکہ عبدالله بن ابی بکر سے سنی ہے اور وہ ثقات میں سے ہے۔ اور عبدالله نے اسے عروہ رحمہ اللہ سے ،پھر عروہ رحمہ اللہ نے اسے بسرہ رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ بن خالد سے روایت کیا ہے۔‘‘ لہٰذا یہاں زہری رحمہ اللہ کی تدلیس کا بہانہ بھی بے کار ہے۔ (۳)۔۔تیسرا اعتراض اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ عبد رحمہ اللہ الله بن ابی بکر اسے حضرت بسرہ رضی اللہ عنہ یا حضرت زید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ دراصل کتاب القراء ۃ سے یہاں عبدالله بن ابی بکر اور حضرت بسرہ رضی اللہ عنہ کے مابین عروہ کا واسطہ گر اہوا تھا۔ اسی سے ڈیروی صاحب کو غلطی لگی۔ حالانکہ دونوں کے مابین عروہ کا واسطہ ہے جیساکہ مصنف عبدالرزاق اور المعرفۃ میں ہے اور المعرفہ کی محولہ بالا عبارت بھی اس بات کی برہان قاطع ہے کہ عروہ کا واسطہ کتا ب القراء ۃ میں گرا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی درست نہیں اور حضرت زید رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت صحیح ہے جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ممکن ہے یہ دونوں حدیثیں بھی صحیح ہوں ‘‘ مبنی برحقیقت ہے۔ ڈیروی صاحب کا یہ فرمانا کہ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی کی یہ بات اس لیے صحیح نہیں کہ یہ محمود رحمہ اللہ بن اسحاق الخزاعی کی سند سے ہے جو قابل اعتماد نہیں۔‘‘ یہ بھی سراسر دھوکا ہے۔ محمود رحمہ اللہ بن اسحاق پر کس نے جرح کی ہے کہ وہ ’’قابل اعتماد نہیں‘‘ ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ تو کتاب القراء ۃ میں جا بجا جزء