کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 210
ہو، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کا شاہد بھی ذکر کیا ہے اور سلسلہ صحیحہ رقم :۴۶۹ میں روایت ذکر کی ہے ۔ اس لیے ڈیروی صاحب کا المحاربی کی تدلیس کو بہانہ بنانا درست نہیں۔ علامہ الماردینی رحمہ اللہ حنفی نے بھی کہا ہے: ’’ الرفع زیادۃ ثقۃ و قد رویت من وجھین فوجب الحکم لھا۔۔الخ‘‘ (الجوہرالنقی : ج ۳ ص ۲۳۸) ’’اس حدیث کا مرفوع ہونا ثقہ کی زیادت ہے جو دو سندوں سے مروی ہے لہٰذا اسے تسلیم کرنا واجب ہے ‘‘مگر ضد کا علاج ہمارے پاس نہیں۔ رہی دوسری روایت تو ابن رحمہ اللہ اسحاق اسے عروہ عن زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں، جب کہ مشہور یہ ہے کہ یہ روایت عروۃ عن بسرہ کے طریق سے ہے مگر امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن رحمہ اللہ جریج بھی اسے زہری عن عبدالله بن ابی بکر عن بسرۃ و زید بن خالد سے روایت کرتے ہیں۔ لہٰذا ابن رحمہ اللہ اسحاق اسے زید رحمہ اللہ بن خالد سے روایت کرنے میں منفرد نہ رہے۔ مگر ڈیروی صاحب کو ابن جریج کی اس روایت میں کئی خرابیاں نظر آتی ہیں: (۱)۔ ابن رحمہ اللہ جریج مدلس ہے (۲)۔زہری رحمہ اللہ مدلس ہے (۳)۔ عبدالله بن ابی بکر رحمہ اللہ کا سماع حضرت بسرہ رضی اللہ عنہ یا حضرت زید رضی اللہ عنہ بن خالد سے نہیں(ایک نظر: ص ۲۸۹)۔حالانکہ تینوں اعتراض درست نہیں۔ ترتیب وار حقیقت ملاحظہ ہو۔ (۱)۔۔ ابن رحمہ اللہ جریج اس میں حدثنی الزہری کہتے ہیں(المعرفۃ للبیہقی : ج ۱ ص ۲۲۲) تصریح سماع اورکسے کہتے ہیں؟ امام بیہقی رحمہ اللہ نے توصاف طو رپر یہ بھی فرمایا کہ ھذا اسناد صحیح لم یشک فیہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سند صحیح ہے، بلکہ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے جو ابن رحمہ اللہ اسحاق کی اس روایت پر اعتراض کیا ہے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کا جواب بھی دیا ہے (المعرفۃ ج ۱ ص ۲۳۱) ۔ ابن جریج کی یہی روایت مصنف عبدالرزاق (ج ۱ ص ۱۱۳) میں بھی موجود ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے:’’ ھذا اسناد صحیح‘‘ (التلخیص: ج ۱ ص ۱۲۴) لہٰذا تدلیس کا اعتراض غلط او ر بے خبری پر مبنی ہے وللتفصیل موضع الاٰخر۔ (۲)۔۔ امام زہری رحمہ اللہ اصطلاحی مدلس نہیں جیسا کہ توضیح میں اس کی تفصیل موجود ہے۔